خلائی شٹل کو خلا میں بھیجتے ہوئے جو مسئلہ درپیش تھا وہ یہ تھا کہ اتنی توانائی اور زور (thrust) کیسے پیدا کیا جائے کہ خلائی شٹل، کششِ ثقل کو مات دے دے۔ شٹل کو کششِ ثقل سے نکالنے کے لئے لگ بھگ اسّی لاکھ پاؤنڈ طاقت (thrust) کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ خلائی شٹل کا اپنا انجن محض بارہ لاکھ پاؤنڈ زور (thrust) لگا سکتا ہے؛ گویا کہ تقریباً ستّر لاکھ پاؤنڈ زور (thrust) کی مزید ضرورت تھی۔ اس مقصد کے لئے اضافی انجن (Boost Thrusters) لگائے جاتے ہیں جو کہ مطلوبہ طاقت مہیا کرکے، شٹل کا کششِ ثقل سے آزاد کرکے گر جاتے ہیں۔ اضافی انجنوں سے تقریباً سّتر لاکھ پاؤنڈطاقت حاصل کی جاتی ہے اور کششِ ثقل سے باہر دھکیل کر یہ اضافی انجن خلائی شٹل کا ساتھ چھوڑ کرگر جاتے ہیں۔ گویا ان اضافی انجنوں یا بوسٹرز کے بغیر خلائی شٹل اوپر نہیں جاسکتی تاہم اگر خلائی شٹل نہ ہو تو یہ بوسٹرز بھی کسی کام کے نہیں۔
انسانی عبادات اور فرائض کی ادائیگی کا ماخذ، اس خلائی شٹل کی طرح ہے جسے سات آسمانوں کے اوپر بارگاہِ الٰہی میں پہنچنا ہوتا ہے اور اعمال وہ بُوسٹرز ہیں جو ان کے ثواب اور قبولیت کو اوپر پہنچاتے ہیں؛ مثلاً واضح طور پر بیان کردیا گیا ہے کہ الّلہ تعالیٰ تک کوئی گوشت نہیں پہنچتا تو پھر یہ بکرا، یہ دنبا، یہ گائے؛ یہ سب “بوسٹرز” ہیں جو انسان کی نیت، اسکے الّلہ کے حکم ماننے کی خواہش اور دوسروں کو قربانی کے گوشت سے فیض یاب کرنے کے جذبے کو اوپر پہنچاتے ہیں۔ نماز ایک “بوسٹر” ہے جو الّلہ سے پانچ بار وعدے کی تجدید کو اوپر لیکر جاتے ہیں، کہ “تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ سے ہی مدد مانگتے ہیں” اور “ان لوگوں کے راستے پر چلا جن پر تیرا کرم ہوا” اب اگر “بوسٹر” نماز پڑھ لی لیکن اسکے فوراً بعد ملاوٹ، جھوٹ، لوگوں میں لڑائی کروانا، چھوٹے سے فائدے کے لئے جھوٹے یا طاقتور کا ساتھ دینا؛ تو ظاہر ہے یہ وہ راستہ تو نہیں جو کرم والوں کا ہے اور جس کی آپ نے دعا مانگی ہے؛ گویا “شٹل” تو وہاں پہنچی ہی نہیں بس دکھاوے کے “بوسٹرز” چلائے۔ یہی عالم حج کا ہے۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ کوئی سرکاری افسر رشوت لیکر بنگلہ، گاڑی، پلازے بنا کر، حج کرکے“نیا جنا ہوا” بن کر آجائے؛ اسے پہلے یہ سب واپس کرنا ہوگا ورنہ اسکی شٹل، گناہوں کی کششِ ثقل سے نہیں نکل سکے گی؛ یہی حال زکٰات کا ہے؛ مستحقین کو دینا اور کوئی کمی نہ کرنا۔
قربانی، سب احکامات میں سے مشکل ترین ہے۔ ایک رات پہلے جانور کو خریدنا اور اگلے دن ذبح کردینا معمول سا بن گیا ہے؛ لیکن اسکی اصل روح یہ تھی کہ ایک ننھے سے بچھڑے کو اپنے بچوں کی طرح پالنا، اسکی اٹھکیلیاں دیکھتے ہوئے ،جوان ہوتے دیکھنا اور پھر دل پر پتھر رکھ کر مثلِ اولاد ذبح کردینا۔ اب آپ سوچیں جب انسان اتنے مشکل کام کو محض الّلہ کی رضا کے لئے کرے گا تو اسکی ہر سال کیسی تربیت ہوگی کہ وہ الّلہ کے لئے اپنا مال بھی دے گا، صدقہ، زکات، خیرات میں۔ اس تربیت کے حامل شخص کا پڑوسی بھوکا نہیں مرے گا؛ ماں باپ کے علاج یا توجہ میں کمی نہیں ہوگی اور رشتہ دار نادار نہیں ہونگے۔ یہی وہ “شٹل” ہے جو زمین کی کشش دھکیل کر، آسمان کا سینہ چیر کر بارگاہِ الٰہی تک پہنچتی ہے۔ اکثر لوگ قربانی کی رقم کو دیگر اہم اور فوری مسائل مثلاً بیمار کی مدد پر خرچ کرنے کی ترغیب دیتے ہیں۔ علماْ کرام بہتر رائے دے سکتے ہیں لیکن میرا ذاتی خیال ہے کہ کسی کی جان بچانا، قربانی سے بھی افضل ہے
قربانی کے بعد اہم ہے اسکی تقسیم؛ تین حصوں میں سے سب سے بہترین ناداروں کو دیں؛ دوسرے نمبر پر بہترین دوستوں اور ہمسائیوں کو اور تیسرے نمبر کا حصہ خود کے لئے۔ غیر مسلموں کا بہت حق ہے؛ اگر آپ کے ہمسائے میں کوئی غیرمسلم ہے تو سب سے پہلے انھیں حصہ دیں اور اگر وہ نادار ہیں تو نئے کپڑے بھی لے کر دیں۔ اب اگلا سوال ہے کہ قربانی سے چند دن کے لئے لوگوں کا پیٹ بھرے گا؛ لیکن اگر آپ نے قربانی کا فضلہ ایسے ہی گلیوں میں پھینک دیا تو اس سے جو لوگ بیمار ہونگے تو آپ خود سوچیں کہ اسکا حاصل جمع کیا ہوا؟ تو فضلے کو ٹھکانے لگانے کی اشد ضرورت ہے۔ بہتر یہی ہے کہ الگ الگ گھروں میں قربانی کی بجائے، اجتماعی قربان گاہیں بنائی جائیں جہاں مرغیوں اور پالتو جانوروں کی خوراک بنانے والوں سے کنٹریکٹ کرکے فضلہ اٹھوایا جائے۔ دعا ہے کہ الّلہ تعالیٰ آپکی قربانی قبول فرمائے اور آپ پر رحمتیں نازل فرمائے! عید مبارک!!!
کالم نگار: راؤ کامران علی، ایم ڈی
ہر بدھ وار کو کالم لکھا جاتا ہے۔ اگر پسند آئے تو شئیر کریں۔ مزید کالم پڑھنے کے لئے اس پیج Tez Hay Nok e Qalam کو like کریں شُکریہ-