قرض ، قرضِ حسنہ اور زکوة

پاکستان کا جی ڈی پی تقریباً تین سو ارب ڈالر ہے اور پاکستان میں محض زکوة ہی تین ارب ڈالر سالانہ دی جاتی ہے، باقی صدقہ خیرات الگ ہے۔ گویا زکوة تقریباً جی ڈی پی کا ایک فیصد ہے۔ امریکہ کا جی ڈی پی تقریباً دو سو گھرب ڈالر ہے جبکہ امریکہ میں سالانہ خیرات تقریباً چار سو ارب ڈالر ہے۔ ایک ترقی پذیر اور غریب ملک ہونے کے باوجود اتنی بڑی رقم زکوة اور خیرات کی مد میں دینا کسی کی بھی قوم کے بڑے دل اور مدد کے جذبے کی غماز ہے؛ تاہم یہ سوال بارہا اٹھایا جاتا ہے کہ ہر سال اتنی بڑی رقم امیروں سے غریبوں کی جانب منتقل ہونے کے باوجود غربت میں کمی کیوں نہیں آرہی ؟ کیا وجہ ہے کہ ہماری قوم میں اتنے عظیم اور دل والے لوگ موجود ہیں لیکن کچھ بن ہی نہیں پارہا ؟
ہوسکتا ہے کہ تمام تر نیک بیتی کے باوجود مدد کرنے کے طریقے میں کچھ کمی ہو؛ ہوسکتا ہے کہ عملیت پر جذبات حاوی ہوجاتے ہوں!

پاکستان میں مالی مدد کے مروجہ طریقوں میں سے تین سب سے زیادہ عام ہیں ۱- قرض، ۲- قرضِ حسنہ، ۳- زکوة
زکوة کا حکم بارہا نماز کے ساتھ ساتھ آیا ہے۔ سورة توبہ میں زکوة کا حکم ہے کہ اسے صرف ضرورتمندوں، ناداروں، زکوٰة کی وصول وتقسیم میں کام کرنے والوں، غلاموں کو آزاد کروانے کیلئے اور مجاہدین اور مسافروں کی مدد کے لیے دیا جائے۔ لیکن اب مسئلہ یہ ہے کہ مستحقین کون ہیں؟ وہ کب تک مستحقین رہ سکتے ہیں؟ زکوة لینے کے ساتھ ساتھ کیا ان کی خود پر کوئی ذمہ داری بھی ہے کہ وہ ہاتھ پاؤں مار کر زکوة کے استحقاق کے دائرے سے باہر نکل سکیں یا نہیں؟ اگر نہیں تو کیا یہ معاشرے کے لیے صحتمندانہ روایت ہے کہ نہیں؟

انسانی ضروریات کے مطابق انسانوں کو تین درجات میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ایک وہ جو صحتمند ہوں کماتے ہوں یا کمانے کی صلاحیت رکھتے ہوں؛ انھیں ضرورت پڑنے پر قرض دیا جاتا ہے جو انھیں مقررہ وقت پر واپس کرنا ہوتا ہے۔ مثلاً ایک انجنئیرنگ کے اسٹوڈنٹ کو فیس کی ضرورت پڑے اور وہ نوکری ملتے ہی واپس کردے۔ دوسرا ہے قرضِ حسنہ؛ مثلاً ایک آدمی کی کسی حادثے میں ٹانگیں ٹوٹ جائیں اور اسکے چھوٹے چھوٹے بچے ہوں۔ اسے قرضِ حسنہ دیا جائے یعنی جب وہ صحتیاب ہوکر کمانے کے قابل ہوجائے تو واپس کردے اور اگر خدانخواستہ بستر پر لگ جائے تو اسے وہ قرضہ معاف ہو۔ اسی طرح اگر کسی کو خدانخواستہ کینسر ہوجائے اور پتا ہو کہ ناں تو وہ قرضہ کبھی لوٹا سکے گا اور نہ ہی پسماندگان اس قابل ہیں تو یہ قرض کبھی نہ واپس ہونے والا ہے اور اسے زکوة کہہ سکتے ہیں۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کیا ہم ان درجات کو عقل کی نظر سے دیکھتے ہیں یا جذبات کی؛ بالخصوص رمضان المبارک میں جب روزوں اور عبادات کے باعث دل نرم ہوتا ہے تو دھڑ ادھڑ جذباتی ہوکر مال لٹاتے ہیں اور اگلے سال پھر وہی سائل اسی حالت میں اسی مہینے میں اسی سخاوت کی راہ تکتے ہیں۔مُفت کے مال کی لت سب سے پہلے کچی عمر کے طالبعلموں کو قرضِ حسنہ کی صورت میں لگائی جاتی ہے۔ کتنے طالبعلم ہیں جو زندگی میں کامیاب ہونے کے بعد قرضِ حسنہ واپس کرتے ہیں ؟ غالباً کوئی بھی نہیں! کیونکہ انکے دماغ میں یہ احساسِ ذمہ داری ہوتا ہی نہیں کہ واپس کرنا ہے۔ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں یہ عام تھا کہ متمول گھروں کے طالبعلم بھی قرضِ حسنہ لیکر اڑا دیتے بلکہ ان دنوں “شفیع ٹرسٹ “کی مدد لینے کے لئے لائن میں لگے ہوتے تھے۔ جب کوئی انھیں بتاتا کہ یہ زکوة یا خیرات کا مال ہے تو “دانشوارانہ” جواب آتا ہے کہ “ٹرسٹ بنا کر یہ امیر لوگ ٹیکس کے پیسے بچاتے ہیں تو چلو ہم بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھو لیں”۔ اب یہ “مائینڈ سیٹ” ہے انتہائی پڑھے لکھے طبقے کا۔ اسی طرح میڈیکل کالجوں میں غریب بچوں کو اسکالرشپ دئیے جاتے ہیں۔ امریکہ میں ہماری نشتر کے ڈاکٹروں کی تنظیم نے نشتر میڈیکل کالج کے طلبا کےلئے دس کروڑ روپے مختص کئے ہیں۔ اس پراجیکٹ کا حصہ ہونے کے باوجود میرا اصولی اختلاف تھا اور آج بھی ہے کہ اسکالرشپ کی بجائے قرضہ ہو جو انھیں ایف سی پی ایس یا دیگر اسپیشلائزیشن کے بعد ہر صورت واپس کرنا ہو۔ “اسکالرشپ” کے نام پر یہ “فیصلہ” ان کے ہاتھ میں کیوں دیا جائے کہ واپس کرنا ہے یا نہیں اور محض ایک فیصد طلبا واپس کریں۔ آجکل کے سوشل میڈیا کے زمانے میں قرضہ واپس لینا اتنا مشکل نہیں، کم از کم ان لوگوں سے جو قرضِ حسنہ ڈکار کر “فیس بک” پر زرداری اور شریفین کی کرپشن پر لعن طعن کر رہے ہوتے ہیں۔ ویب سائٹ بنا کر نادہندگان کے نام ڈالیں اور جہاں جہاں سرکار ایمان دارانہ جذبات کی گل افشانی کرتے ہوں وہاں ویب سائٹ کا لنک پیسٹ کردیں اور قرضہ فوراً واپس!

کچھ ایسا ہی حال زکوة کا ہے۔ احتیاط کی ضرورت ہے کہ اسے فوری مالی مسائل کے حل کے لئے استعمال کیا جائے۔ ایک بیوہ کو زکوة کے بعد اگر اسے کوئی ہنر سکھانے کی فیس دے دی جائے تو وہ اپنے پاؤں پر کھڑی ہوسکتی ہے اور اگلے سال زکوة سے بچ سکتی ہے۔ اسے طرح اگر کسی یتیم کی فیس دیں تو اسے پیار سے بتائیں کہ یہ اسکا حق ہے لیکن محنت کرکے بڑا آدمی بن کر اسے قرض لوٹانا ہے۔ تاہم اگر کوئی اس حالت میں ہے کہ لوٹانا ناممکن ہے تو بھی واضح کردیں ۔ زکوة کے مستحقین کے ساتھ ساتھ وہ لوگ انتہائی توجہ کے قابل ہیں جو سفید پوش ہیں نہ زکوة لے سکتے ہیں نہ ہی ہاتھ پھیلا۔ انھیں ڈھونڈنا اور “پہچاننا” ہمارا فرض ہے۔
شرعی مسائل میں زیادہ دور تک نہیں گھسا جا سکتا لیکن کچھ متمول لوگ ذاتی زکوة اکھٹی کرکے ایسے ادارے بنا رہے ہیں جو زکوة کے مستحقین کو ہر سال مفت مال کی لت لگانے کی بجائے انھیں قدموں پر کھڑا ہونا سکھا رہے ہیں۔ اگر ہم ہر سال تین سو ارب روپے مناسب طریقے سے “سرکولیٹ” کرسکیں تو اس ملک میں ڈھونڈے سے بھی زکوة لینے والا نہ ملے۔

‏‎کالم نگار: راؤ کامران علی، ایم ڈی
ہر بدھ وار کو کالم لکھا جاتا ہے۔ اگر پسند آئے تو شئیر کریں۔ مزید کالم پڑھنے کے لئے اس پیج Tez Hay Nok e Qalam کو like کریں شُکریہ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *