محرم الحرام کے پاکیزہ مہینے فاطمہ رضی الّلہ تعالیٰ عنہ کے لال دین کی سربلندی کی تقدیر اپنے لہو سے تحریر کر گئے۔ چودہ سو سال سے مذہب ایک ہے لیکن ہزاروں لاکھوں کتابیں مختلف واقعات کو مختلف زاویوں سے پیش کرتی ہیں۔ میرے نزدیک اسلامی مہینہ جہاد کے مہینے محرم سے شروع ہوتا ہے اور حج پر ختم ہوتا ہے؛ نماز ایک بادل کی طرح بارہ مہینے سایہ دیتی ہے؛ جہاد اور حج کے درمیان روزہ اور زکات کی برکتیں آتی ہیں۔محرم الحرام کو چند شریر متنازع بنا کر وہی صدیوں پرانی باتیں چھیڑنے کی کوشش کرتے ہیں جنھیں انتہائی جلیل القدر صحابہ اور خلفاٌ نہ حل کر پائے نتیجتاً اپنوں کے ہاتھوں اپنوں کا لہو بہا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان جھگڑوں، طعنوں مینوں، گالیوں، فتووں سے اسلام کا کیا بھلا ہوگا؛ کسی سُنی یا شیعہ کی کیا بہتری ہوگی؟ اہم بات یہ ہے کہ حضرت امام حسین آقائے دو جہاں کے نواسے تھے؛ جتنا دکھ اہل تشیع کو ہے اگر اس سے کم اہل سنت کو ہو تو ایمان ٹٹولنے کی ضرورت ہے۔ کسی بھی فوتگی پر چلیں جائیں، رشتہ داروں میں سے کوئی بین کررہا ہوگا تو کوئی چُپ چاپ آنسو بہا رہا؛ یہی عالم کربلا کی شہدا کی یاد میں ہے؛ جو چاہے روئے، ماتم کرے اور جو چاہے زنجیر زنی کرے۔
کربلا کا سانحہ یقیناً کچھ سازشوں، کچھ غلط فہمیوں کا شاخسانہ ہے لیکن اسکی وجہ کوئی کمزوری نہیں بلکہ نرم دل حضرت عثمان کی شفقت اور حضرت امام حسن کی بے غرضی شامل ہے۔ ایک ذوالنورین اور دوسرے فاطمہ کے لال؛ خون خرابی اور امت مسلمہ کو تقسیم سے بچانے کی کوشش میں لگے رہے۔ حضرت عثمان نے باغیوں پر تلوار نہ اٹھائی اور حضرت امام حسن نے معصوموں کی جانیں بچانے کے لئے اپنا حق تاوان میں دے دیا۔ کبھی دماغ میں آتا ہے کہ کاش حضرت عثمان مروان کو اتنا دور ہی رکھتے جتنا ہمارے نبی نے رکھا اور حضرت امام حسن معاہدہ ہی نہ کرتے۔ لیکن ان باتوں پر “کاش” تو کہا جاسکتا ہے؛ لڑائی جھگڑا نہیں کیا جاسکتا۔
تاریخ میں یہ بات بار بار دہرائی جاچکی ہے کہ اگر حضرت امام حسین یزید کے ہاتھ پر بیت کر لیتے تو اہل بیت کی جانیں بچ جاتیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کے بعد مذہب کیا ہوتا؟ کیا اپنی اصلی شکل میں رہتا؟ کیا آج الّلہ کے نبی کا کوئی نام لیوا ہوتا؛ گمان غالب ہے، نہیں!!! جنگوں میں بڑے بڑے سورما اپنی جانیں وارتے رہے ہیں لیکن کوئی بھی مثال نہیں ملتی کہ کوئی اپنا خاندان بمشعول چھ ماہ کے بچے کے لے جائے۔ یہ ہے شان آقائے دو جہاں کے خاندان کی، اہل بیت کی، الّلہ کے دین کی شان میں سب کچھ نچھاور کردینے والوں کی۔
سوشل میڈیا فرقہ واریت کو ہوا دے رہا ہے۔ حال ہی میں علامہ ضمیر نقوی کی نیپال کے حوالے سے ایک ویڈیو منظر عام پر آئی ہے جو کہ یقیناً گمراہ کن ہے لیکن کیا اسے بنیاد بنا کر اس دکھ کے عشرے میں ٹھٹھہ کیا جائے؟ کیا ہر فرقے کے مولانا حضرات ایسی موشگافیاں نہیں چھوڑ چکے ہیں؟ کہیں گالیاں، کہیں سر اڑا دو اور کہیں حوروں کی پستانوں کے حوالے سے احمقانہ ترغیبیں۔ ذاکر اور مقرر ہر سال نئے ٹاپک تو لا نہیں سکتے اور نہ ہی کوئی تبدیلی کرسکتے تو بعض اوقات جوشِ بیان میں ایسا ہوجاتا ہے۔ جیسے آج کے دور میں فلموں میں بوس و کنار کے سین میں پرانی فلموں کی طرح سورج سامنے آجائے یا پھول ٹکرانے لگیں تو فلم فلاپ ہوجائے گی اسی طرح مولانا اور ذاکر حضرات اپنے بیانات میں مصالحہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں؛ نتیجتاً کوئی دوسرے طبقے کو واجبِ القتل بنا دیتا ہے تو کوئی حوروں کے جسم کا کھلا ڈلا ذکر کرکے سامعین کو واجب الغسل بنا دیتا ہے۔ تو محض ایک غلط بیان پر کسی فرقے کو نشانہ کیوں بنایا جائے۔
فاطمہ کے لال اپنی جانیں قربان کرکے ہمیں کبھی نہ جھکنے والی راہ دکھا گئے ہیں؛ یہ پوری امت مسلمہ کا اثاثہ ہیں اور رہیں گے۔ وقت آگیا ہے کہ اہل تشیع اور اہل سنت ایک دوسرے کا دفاع کریں تاکہ سازشوں کو منہ کی کھانی پڑے۔ ایک اہل سنت ہونے کی حیثیت سے راقم بھی یہی فرض نبھا رہا ہے! جزاک الّلہ خیر!
کالم نگار: راؤ کامران علی، ایم ڈی
ہر بدھ وار کو کالم لکھا جاتا ہے۔ اگر پسند آئے تو شئیر کریں۔ مزید کالم پڑھنے کے لئے اس پیج Tez Hay Nok e Qalam کو like کریں شُکریہ-