دنیا میں زندگی گزارنے کے مختلف ضابطے ہیں جو مختلف حالات میں مختلف وجوہات کی بنا پر لاگو ہوتے ہیں۔ ان میں اہم مذہبی احکامات، اخلاقیات، سماجی ضابطے اور قانون کی حکمرانی شامل ہے۔ پوری دنیا میں ان سب ضوابط کی الگ الگ جگہیں ہیں لیکن مملکتِ خداداد میں ان سب کو اپنی اپنی آسانی کے مطابق الٹ پلٹ کر ایسے استعمال کیا جاتا ہے جیسے رکوع کی جگہ قیام اور سجدے کی جگہ رکوع۔ حال ہی میں محترم چیف جسٹس ایک پرائیویٹ ہسپتال کا دورہ کرتے ہیں اور ہسپتال کے مالک کو بتاتے ہیں کہ “خدا کا خوف کرو”؛ حالانکہ وہ مبلغ یا تبلیغی نہیں کہ خوف خدا دلائیں ، انکا کام تھا اس سلسلے میں بطور جج، قانون کی تشریح کرکے بھاری جرمانہ لگا دیتے اور پھر کچھ ایسا ہی جرمانہ کروڑ روپیہ ایڈوانس لیکر کیس ہاتھ میں لینے والے اعتزاز احسن پر بھی لگتا۔ اسکے بعد سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو لاکھوں کیس اٹکے ہوئے ہیں اور عدلیہ انکا فیصلہ نہیں دے پارہی ہے، اسکا کیا؟ بلکہ یہ وہ مقام ہے جہاں ایک عام انسان چیف صاحب کو محض خوفِ خدا ہی دلا سکتا ہے کیونکہ عام انسان کے پاس کوئی طاقت نہیں، حالانکہ انکا کوئی قانونی حل نکلنا چاہیے لیکن جب تک “قانونی حل” نہ نکلے “مذہبی طور” پر بھی چیف جسٹس کو اسلام میں انصاف کی اہمیت یاد کروائی جا سکتی ہے اور یہ بھی کہ بےگناہ جیل میں ہوں تو “سماجی” طور پرفیملی پر کیا گزرتی ہے۔
ہمارے ہاں جنسی تعلق یا سیکس کے حوالے سے یہ “مکسچر” سب سے زیادہ پایا جاتا ہے۔ جو نوجوان “سماجی” اور “اخلاقی طریقے” سے لڑکی کو متاثر کرکے جنسی تعلق رکھنے میں ناکام ہو اور “قانونی طریقے” سے بھی رشتہ نہ ملے تو وہ “مذہبی طریقے” سے تین چوتھائی پاکستان کو “زانی” قرار دیکر جہنم کو ان سے ہی بھر رہا ہوتا ہے، (کافروں کے لئے تو جگہ ہی نہیں چھوڑی جوان نے)۔ دو بالغ انسان اپنی مرضی سے ملیں تو معاشرے میں بُرے، مارے جانے کا ڈر اور پولیس کے ہاتھوں ذلیل ہونے کا ڈر اور جہنم کی آگ کا ڈر الگ; گویا وہ مندرجہ بالا “چاروں ضوابط” میں رگڑے گئے لیکن اگر کسی لڑکی کے ساتھ زنابالجبر ہوجائے تو بقول امیر جماعت اسلامی منور حسن مرحوم وہ لڑکی چُپ سادھ لے!!!! الّلہ اکبر!!! جس ظلم میں ریپ ہوئی لڑکی (یا لڑکے) کا قصور ہی نہیں اس کے لئے ان چاروں ضوابط میں سے کوئی جگہ ہی نہیں! “حاجی صاحب”، سرمہ سلائی والے جنسی تعلق کو گناہ کبیرہ سمجھتے ہیں لیکن اپنے کریانہ کی دکان پر کام کرتے کسی بھی کم سن لڑکے پر “دستِ شفقت” پھیرنے سے نہیں چوکتے؛ کیونکہ یہاں وہ قانونی، اخلاقی اور سماجی پہلو کو نظر انداز کرتے ہوئے مذہبی طور پر اسے “گناہ صغیرہ” قرار دیتے ہیں جو (انکے خیال میں) دو با جماعت فرض نمازوں کے درمیان میں جھڑ جائیگا اور “چائلڈ مولسٹیشن” کے قانون کا پاکستان میں واضح اطلاق ہے نہیں جبکہ اگر یہی کام وہ امریکہ یا کافروں کے کسی ملک میں کرتے تو یہ معاملہ مذہبی آنکھ سے نہ دیکھا جاتا اور کبیرہ یا صغیرہ گناہ کی تفریق کے بغیر، “حاجی صاحب “بیس پچیس سال کے لئے اندر ہوتے اور رہائی کے بعد جس محلے میں جاتے قانونی طور پر چاروں اطراف کے سو سو گھروں کو بتانا فرض ہوتا کہ اس شیطان سے بچوں کو بچا کر رکھو۔ جتنے بھی چرچ کے پادری پکڑے جاتے ہیں انکے ساتھ یہی ہوتا ہے۔ یہ ہے قانون کی حکمرانی جس پر اپنے ہاں کے سماجی، اخلاقی اور مذہبی مکسچر نے مرضی کا پردہ ڈال رکھا ہے۔ قندیل بلوچ کا بھائی “سماجی” طور پر بہن یا ماں باپ کی ذمہ داری پوری نہیں کرتا، “اخلاقی” طور پر بہن کا مال کھاتا ہے، “مذہب اور غیرت کے نام پر” اسی بہن کو قتل کرکے، “قانونی طور” پر بچ جاتا ہے؛ قندیل بلوچ تو ایک مثال ہے ورنہ ہر ظلم کے پیچھے ان چاروں عوامل کا توڑ موڑ کر استعمال ظالموں کا سب سے بڑا ہتھیار ہے۔
اس کے بعد سب سے بڑی کنفیوژن ہے کرپشن؛ یہ ایک سراسر قانونی، اخلاقی اور سماجی معاملہ ہے لیکن مذہبی رنگ ڈال کر، کرپشن کے پیسے سے حج کرکے خود ہی محلے میں مشہور کر دو کہ آخر اس بندے میں کوئی تو اچھائی ہوگی کہ الّلہ کے گھر سے “بُلاوا آگیا” اور اس طرح “بلاوے” کا چاندی کا ورق لگا کر غلاظت سے بھری کرپشن کی ڈِش کو سماجی اور اخلاقی طور پر قابل قبول بنا لیا جاتا ہے اور قانونی طور پر تو ہر کرپشن کو ویسے ہی نہیں پکڑا جا سکتا۔ نواز شریف اور اسحاق ڈار کے قریبی بتاتے ہیں کہ انھوں نے کرپشن تو عرصہ پہلے چھوڑ دی تھی۔ لیکن مذہب میں ٹیکس نہیں اسلئے وہ ہمیشہ ٹیکس بچاتے رہے؛ گویا ملک کا سربراہ قانون کی پاسداری پر مذہب کا خود کو حوالہ دے کر ٹیکس چوری کرتا رہا جبکہ نوکری پیشہ عوام ٹیکس دیتی رہی۔
دنیا میں قانون واحد ضابطہ حیات ہے جو انسان کو دوسرے انسان سے تحفظ دے سکتا ہے۔ اس میں نہ اسرائیلی یہودی مسلمان فلسطینی کو قتل کرسکتا ہے، نہ ہی مسلمان کسی قادیانی یا مرتد کو؛ کوئی کسی پر ظلم کرکے معاف کرنے کی فضیلت کی حدیثیں سنا کر اگلے دن پھر کسی پر ظلم نہیں کرسکتا۔ مذہب کا تعلق گھر کے اندر اپنی ذات کی حد تک ہے گو کہ مذہب کی بہترین عملداری سماجی اور اخلاقی زندگی میں لاگو ہے۔ سماج اور اخلاق کی بنیاد پر اسلئے فیصلے نہیں ہوسکتے کہ یورپ کے برہنہ بیچ پر انکی اخلاقیات کے مطابق خاتون زیادہ محفوظ ہوسکتی ہے جبکہ کراچی کی سڑکوں پر رالیں لٹکاتے مومنوں کے درمیان برقعہ پہنی لڑکی کم محفوظ۔ اس طرح تو ہر لڑکی یا ہر کمزور ان چاروں عوامل کی بگڑی ہوئی خود ساختہ تشریح کا نشانہ بن جائے گا۔
قانون کی حکمرانی جو مذہب، سماج اور اخلاق کے دائروں کا تعین کرے، انسانوں کی بقا کا واحد راستہ ہے۔ جو لوگ قانون کی خلاف درزی کرکے سماجی اور مذہبی ڈھکوسلوں کی آڑ لیتے ہیں وہ معاشرے کے لئے زہرِ قاتل ہیں۔
کالم نگار: راؤ کامران علی، ایم ڈی
ہر بدھ وار کو کالم لکھا جاتا ہے۔ اگر پسند آئے تو شئیر کریں۔ مزید کالم پڑھنے کے لئے اس پیج Tez Hay Nok e Qalamکو like کریں شُکریہ-