اگر میں آپ سے سوال کروں کہ آپ کے خیال میں عمران علی، ڈبل شاہ اور ڈاکٹر عاصم میں سے سب سے بڑا مجرم کون میں تو آپ سوچیں گے کہ یہ رائٹر پاگل ہوگیا ہے۔ ظاہری بات ہے کہ عمران علی!!! لیکن میں اس سے متفق نہیں ہوں۔ کوئی شک نہیں کہ عمران نے بچیوں پر ظلم سے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا، خوف اور دہشت پھیلا دی، سب بچوں کے ماں باپ کی آنکھیں بھگو دیں اور وہ سرِ عام پھانسی کا حقدار ہے؛ لیکن اس کی وجہ سے دس جانیں اس دنیا سے رخصت ہوئیں جبکہ “ڈبل شاہ” اور ڈاکٹر عاصم اس سے کہیں بڑے مجرم ہیں اور ایک کے باعث کئی جانیں گئیں جبکہ دوسرے کے باعث کئی جانیں (خدانخواستہ) جائیں گی۔
ڈبل شاہ، وزیرآباد کے علاقے میں 2005 سے 2007 کے درمیان لوگوں کے پیسے ڈبل کرنے میں مشہور تھا۔ وہ دبئی جاکر ایک فراڈ اسکیم سیکھ کر آیا تھا جسے “پونزی اسکیم” کہتے ہیں۔ (اس اسکیم پر ایک الگ کالم لکھا جائے گا)۔ قصہ کچھ یوں تھا کہ پہلے بندے کے دس ہزار پندرہ دن میں اپنی جیب سے ڈبل کردو، پھر دوسرے کے پیسے تیسرے سے ڈبل اور تیسرے کے چوتھے سے۔ جب “ویہار” قائم ہوگیا اور لوگ اپنا گھر بار بیچ کر پیسے دینے لگے تو “ڈبل کرنے کا پیریڈ”، پندرہ دن سے ستر دن کردیا تاکہ مال اکھٹا کرکے بھاگا جاسکے۔ نیب نے پکڑا لیکن لوگوں کے اربوں واپس نہ آئے اور ڈبل شاہ 2015 میں جیل میں مر گیا لیکن نہ جانے کتنے لوگوں کو جیتے جی مار گیا، کتنی منگنیاں تڑوا گیا،جہیز چھن جانے سے، کتنی ماؤں کو ہارٹ اٹیک اور کتنے باپوں کو فالج کروا گیا۔ اس کے نقصان کو پورا کرنے متاثرینِ علاقہ کے نوجوانوں کا ایک گروہ یونان گیا لیکن کوسٹ گارڈز کو دیکھ کر ایجنٹوں نے سارے غیر قانونی مسافروں کو پانی میں پھینک کر ڈبو دیا۔ آج بھی کتنے ہی لوگ ایسے ڈبل کرنے والے چمتکاروں کا شکار بن رہے ہیں۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے جب ایکشن لیں گے جب مزید اربوں روپے اور سینکڑوں جانیں ڈوب چکی ہوں گی۔
اب آتا ہے ان دونوں سے بھی بڑا مجرم، ڈاکٹر عاصم حسین! بطور پی ایم ڈی سی کے سربراہ کے، ڈاکٹر عاصم نے فی میڈیکل کالج بیس کروڑ رشوت لیکر ایسی ایسی عمارتوں میں بھی میڈیکل کالج منظور کروا دیئے جہاں پرائمری اسکول بھی نہ بن سکتا ہو۔ پچاس سے زائد میڈیکل کالجز منظور کرتے وقت یہ بھی نہ دیکھا گیا کہ گزشتہ بیس سالوں میں ایک بھی نیا سرکاری ہسپتال نہیں کھولا گیا جہاں یہ بچے کلینیکل تجربہ حاصل کرسکیں۔ سرکاری میڈیکل کالج کا نالائق سے نالائق طالبعلم بھی مریضوں کو چیک کرکے، سخت پروفیسرز کی زیرِ نگرانی، آپریشن کرکے کچھ نہ کچھ سیکھ لیتا ہے لیکن پرائیویٹ میڈیکل کالجز کے بچے جب پرائیویٹ لگژری ہسپتالوں میں روٹیشن کرتے ہیں تو بتائیں کون مریض لاکھوں روپے دے کر خود پر تجربے کرواتا ہے؟ اس کے باعث انکی تربیت ادھوری رہے گی ۔ہوسکتا ہے کچھ قابل بھی ہوں تاہم ان میں سے زیادہ تر پاکستان کے جس اسپتال میں کام کریں گے وہاں صبح شام “الّلہ دا حُکم” کی آہ و بکا سنائی دے گی۔ جتنے بیمار ان کے ہاتھوں موت کے مُنہ میں جائیں گے، ان کا خون ڈاکٹر عاصم کے ہاتھوں پر لکھا ہوگا۔ ہاں ان میں سے جو امتحان پاس کرکے باہر چلے جائیں گئے وہاں سسٹم انھیں چھیل کر ٹھیک کر دے گا یا وہ سڑک پر بنیانیں بیچیں گے۔ ناں تو وہاں ڈاکٹر عاصم ہوتا ہے اور نہ ہی “کافر”، “الّلہ دا حکم” مریضوں پر اپلائی کرتے ہیں، جیسے ہی مریض کا غلط علاج کیا جاتا ہے، ڈاکٹر نشانِ عبرت بن جاتا ہے۔
اب اسی ڈاکٹر عاصم کو سندھ ہائر ایجوکیشن کمیشن کا سربراہ بنا دیا گیا ہے۔خدا کی پناہ! ہم آج کے قاتلوں کو سرعام پھانسی اور مستقبل کے قاتلوں کو عہدے دیتے ہیں؛ ان ڈاکٹر عاصموں کا عذاب ہماری زبانوں جن پر “بھٹو زندہ ہے” اور “شیر آرہا ہے” اور ہمارے ہاتھوں جن سے ووٹ کی مہر لگاتے ہیں، کے باعث ہم پر آیا ہے اور ہم نے اگر آج بھی غیر جانبدارانہ سوچنا شروع نہ کیا تو ہم خود ہی اس عذاب کو اپنی اگلی نسلوں پر مسلط کرکے جائیں گے۔
کالم نگار: راؤ کامران علی، ایم ڈی
ہر بدھ وار کو کالم لکھا جاتا ہے۔ اگر پسند آئے تو شئیر کریں۔ مزید کالم پڑھنے کے لئے اس پیج Tez Hay Nok e Qalam کو like کریں شُکریہ۔