جناح ماڈل اسکول ہمارے شہر میں پہلا پرائیویٹ اسکول تھا جسے انگریزی اسکول کہہ کر کھولا گیا تھا۔ چھوٹے شہر میں “انگریز استانیاں” کہاں سے ملتیں سو پڑھنے اور سیکھنے کی حد تک بہترین انگریزی تھی اور بولنے کی حد تک بس چند فقرے؛ بہرحال ڈسپلن اور بہترین رکھ رکھاؤ تھا۔ شہر کی بیوروکریسی سے لیکر سیاسی اشرافیہ کے بچے پڑھتے تھے لیکن نام اسی کا ہوتا تھا جو تعلیمی میدان میں جھنڈے گاڑتا؛ جس سے بچوں میں احساس کمتری پیدا نہیں ہوتا تھا اور محنت کی عظمت پر یقین آتا تھا جبکہ سرکاری اسکولوں میں اے ایس آئی کے بچوں کو بھی “نکے تھانیدار” کا پروٹوکول ملتا تھا۔ انگریزی اسکول میں ایسے بچے بھی تھے جنھیں اردو تک بولنی نہیں آتی تھی اور سائیکل کے ڈنڈے پر بٹھا کر پانچ پانچ میل سے انکے والدین گاؤں سے چھوڑنے آتے۔ انکی وضع قطع سے غربت صاف نظر آتی تھی لیکن اہم بات یہ تھی کہ وہ کسان بھی تعلیم کی کمی کے باوجود اتنا شعور رکھتے تھے کہ انگریزی بچوں کے لئے کتنی ضروری ہے اور اپنا پیٹ کاٹ کر بچوں کو پرائیویٹ اسکول میں پڑھاتے تھے؛ جبکہ اسی دور میں امیر المومنین جنرل ضیاالحق کو دفتروں میں پانچ وقت نماز اور نیوزکاسٹر کے سر اور سینہ ڈھکا ہونے کی فکر تھی۔ یہ اسّی کی دہائی کا وسط تھا اور آج کی معاشی بدحالی کی بنیاد اس وقت امیر المومنین کے ہاتھوں رکھی جارہی تھی۔
دنیا میں ترقی کی جڑوں نے اسی کی دھائی میں وقت کی زرخیز مٹی کی نمی سے دوستی گاڑھنی شروع کردی تھی۔ چین کے اندر انگریزی سیکھنے کا رجحان بڑھ رہا تھا اور چینیوں کو کوئی “اے ایپل” اور “بی بال “والا بھی مل جاتا تو اسے روک کر یہ دو لفظ سیکھنے بیٹھ جاتے؛ جن لوگوں کو پاکستان میں میڈیکل کالج میں داخلہ نہ ملتا وہ چین کے میڈیکل کالج میں داخلہ لیکر انگریزی پڑھا کر پیسے کماتےاور دوسری جانب، امریکہ میں بل گیٹس اور اسٹیو جابز ٹیکنالوجی کی دنیا کو ایک نیا رخ دینے میں لگے ہوئے تھے۔ چینیوں کو ٹیکنالوجی کی فکر نہیں تھی؛ انھیں بس زبان آنی چاہئیے تھی باقی وہ ٹیکنالوجی کی نقل مار لیتے۔ یہاں سے چین کو ہم کاپی کرسکتے تھے کیونکہ جیسی سستی لیبر چین کے پاس ہے ویسی ہی ہماری پاس لیکن اُف یہ انگریزی!!! اسّی کی دہائی میں ننانوے فیصد اسکول سرکاری تھے اور انگریزی چھٹی جماعت میں شروع کی جاتی تھی یعنی کہ جب نالائق بچہ تیرہ چودہ سال کا ہوجاتا تھا اور نہ استاد کی سوٹی کا ڈر اور نہ ہی دماغ کچھ نیا سیکھنے پر راضی اور اس پر فرنگیوں کی زبان۔ کاش ایسی تعلیمی پالیسیاں بنانے والوں کو بعد از مرگ علامتی پھانسی دی جائے۔ انگریزی کو استادوں نے تشدد کے لئے بھی بطور “ہتھیار”رکھا ہوا تھا؛ ماجھے نے استاد کی بھینس کو چارہ ڈالنے سے انکار کیا تو past indefinite tense پوچھ کر اسے لمبا ڈال لو اور اسکی تشریف پر اتنی سوٹیاں مارو کہ وہ future میں definitely ناں نہ کرسکے۔ آدھے بچے انگریزی سے اس لئے بھاگے۔
جہاں پوری دنیا ترقی کررہی تھی، اپنی نئی نسل کے لئے ایمازان کی، گوگل کی، علی بابا کی، ایپل کی اور مائیکروسوفٹ کی فصل کاشت کررہی تھی، ہمارے امیرالمومنین اور “ فاتح افغانستان” ہمارے ملک میں سرحد پار سے ہیروئن کی فصل کاشت کررہے تھے اور ہمارے میٹھے اور سادے لوگ جو کڑ کڑ کرتے گراری والے چاقو دکھا کر لڑائی ختم کردیتے تھے ، انکے ہاتھوں میں کلاشنکوفیں تھما رہے تھے۔ ہوسکتا ہے کہ اسے ہم جرنیلوں کی کم عقلی پر مبنی نیک نیتی مان لیتے کہ میڑک پاس جرنیل تھے لیکن مزے کی بات ہے کہ وہ اپنے بچوں کیلئے کم عقل نہیں؛ انھی دنوں اعجاز الحق، شکاگو سے چند گھنٹے کی مسافت پر southern Illinois University میں پڑھ رہا تھا جبکہ ہمایوں اختر خان بن فاتح افغانستان، کینیڈا میں ایکچوریل سائنس پڑھ رہا تھا۔ آپ میں سے نوے فیصد کو آج بھی پتا نہیں ہوگا کہ actuarial science ہے کیا بلا، جب کہ صاحبزادے چالیس سال پہلے یہ پڑھ رہے تھے؛ جبکہ انھی دنوں علی بابا کا مالک” جیک ما “ بیچارہ چین کے فٹ پاتھوں پر انگریزی کے قاعدے ڈھونڈتا تھا۔ یہی حال اپنے زبیر عمر اور اسد عمر کے ابا جان جنرل غلام عمر کا تھا۔
اگر اسّی کی دھائی میں انگریزی لازمی کر دی جاتی، تو نوے کی دہائی میں جب انٹرنیٹ آیا تو ہم اس کے لئے ایسے تیار ہوتے جیسے گندم بیج کر کٹائی کے موسم میں کسان آلات کے ساتھ تیار ہوتے ہیں۔ پورے ملک میں ایک بھی بندہ بیروزگار نہ ہوتا؛ زبان کے ساتھ ایکسپورٹ کلچر ساتھ آتا ہے جو کوالٹی کنٹرول ساتھ لیکر آتا ہے۔ جس ملک میں تیل اور گیس کے ذخیرے نہ ہوں اور چنیوٹ سے سونا بھی محض اخبار میں ہی نکلتا ہو اسکے آپشنز سوائے انسانی مہارت کے کچھ نہیں؛ یہی مہارت باہر کے ملکوں میں کام کرکے وہاں سے پیسہ بھیجتی ہے اور یہی مہارت باہر سے ایکسپورٹ کے آرڈرز لیکر آتی ہے۔ حالات تیزی سے ابتری کی جانب جا رہے ہیں۔ کمانڈو کی کاروائیوں اور مرحوم بیوی کی تصویر ہاتھ میں لئے ڈرامے باز کے بعد ڈنگ ٹپاؤ نون لیگ موجودہ نا تجربہ کار حکومت کو ایسا ہی پاکستان دیکر گئی ہے جیسا 1947 میں ملا تھا۔ لیکن آج بھی دور دور تک لوئی حل نظر نہیں آتا سوائےتعلیمی اصلاحات کے؛ وہ بھی ہنگامی بنیادوں پر!!!!
کالم نگار: راؤ کامران علی، ایم ڈی
ہر بدھ وار کو کالم لکھا جاتا ہے۔ اگر پسند آئے تو شئیر کریں۔ مزید کالم پڑھنے کے لئے اس پیج Tez Hay Nok e Qalam کو like کریں شُکریہ-