دنیا کی تاریخ میں شاید ہی کبھی کسی گیارہ بارہ سالہ بچی کو اتنا متنازعہ بنایا گیا ہوگا جتنا ملالہ کو بنایا گیا! سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیسے کن وجوہات کی بنا پر ملالہ متنازعہ بنی؟ چلیں ان وجوہات کا فرداٗ فرداٗ جائزہ لے کر کچھ اخذ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
۱۔ کیا ایک گیارہ سالہ بچی گل مکئ کی ڈائری لکھ سکتی ہے؟
۲۔ کیا اس نے طالبان اور اسکولوں کی بندش کے خلاف لکھ کر اسلام اور پاکستان کا نام بدنام کیا؟
۳- کیا اسے واقعی گولی لگی یا ڈرامہ اسٹیج کیا گیا؟
۴- اسے مغرب اتنا بھاؤ کیوں دے رہا ہے؟
۵- کیا وہ پاکستان کے لیے اہم ہے یا نہیں؟
سب سے پہلے تو یہ کہ کیا ایک گیارہ سالہ بچی “گل مکئ” کی ڈائری لکھ سکتی ہے؟ اسکے جواب میں میرا سوال ہے کہ کیا اسی ملک کی ایک نو سالہ بچی مائیکروسافٹ کی سرٹیفائیڈ بن سکتی ہے؟ جی ہاں ہماری ہی ارفعہ کریم یہ کارنامہ سرانجام دے چکی ہے تو گیارہ سالہ بچی ڈائری کیوں نہیں لکھ سکتی! والدین کے شعبہ زندگی کا بچوں پر ایک غیرمحسوس طریقے سے اثر ہوتا ہے؛ مثلاً ایک کارڈیالوجسٹ کی گیارہ سالہ بچی دل کے امراض کے نام میڈیکل کی زبان میں بتاتی ہے جبکہ ایک وکیل کی گیارہ سالہ بیٹی کو کوئی ستائے تو ستائے جانے کی دفعہ بشمول ممکنہ سزا کی دھمکی دے دیتی ہے، بالکل اسی طرح پڑھے لکھے ماحول میں پلی بڑھی، ٹیچر کی گیارہ سالہ بیٹی ڈائری لکھ سکتی ہے۔ البتہ یہ ہوسکتا ہے کہ ملالہ کا ٹیچر والد کچھ اصلاح یا ترمیم کر دیتا ہو جو کہ ہم سب والدین کرتے ہیں۔ “بائی دا وے”اگر آپ کی گیارہ سالہ بیٹی اخبار میں نہیں تو کم ازکم ویسے ہی کوئی اچھا مضمون نہیں لکھ سکتی تو آپ کو ملالہ سے زیادہ اپنی بیٹی کی تعلیم کی فکر ہونی چاہئیے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس نے طالبان اور اسکولوں کی بندش کے خلاف لکھ کر اسلام اور پاکستان کا نام بدنام کیا؟ یاد رہے یہ دورانیہ 2012-2009 کے درمیان کا ہے جب سوات میں درحقیقت طالبان، اسلام اور پاکستان کا نام بدنام کررہے تھے؛ بدامنی تھی، اسکول بند ہورہے تھے؛ جنرل اشفاق کیانی کو چین اسموکنگ سے فرصت نہیں تھی اور عمران خان اسکول بند کرنے والوں کا دفتر کھلوانے کی بات کررہا تھا۔ زرداری اپنے بچوں کو لندن اور خود ایوانِ صدر بیٹھ کر خاموش تھا اور نواز لیگ طالبان کی منتیں کررہی تھی کہ پنجاب کو تو بخش دو اور ایک بچی نے آواز بلند کی۔ چلیں فرض کر لیتے ہیں کہ ملالہ کا باپ سی آئی اے کا بندہ تھا لیکن کیا کوئی سی آئی اے کا بندہ ایسے خطرناک ماحول میں رہ کر اپنے خاندان کی جان کو مصیبت میں ڈالتا؟ کیا آپ ایسا کریں گے، کسی بھی قیمت پر کریں گے؟
اب پروپیگنڈا کیا جاتا ہے کہ کیا واقعی ملالہ گولی لگی؟۔ کسی بھی انسان کو جب فالج ہوتا ہے تو اسکے دماغ کے وہ حصے جو بات کرنے یا ہنسنے کے عمل کو کنٹرول کرتے ہیں تباہ ہوجاتے ہیں، اسے لقوہ پڑنا بھی کہتے ہیں۔ دماغ میں لگی گولی یا بعض اوقات اونچائی سے سر کے بل گر کر بھی یہی ہوتا ہے۔ ملالہ کو گولی لگنے کے بعد سی ایم ایچ پشاور لیکر جایا گیا جہاں خون روکا کیا، وینٹی لیٹر پر ڈالا گیا اور جب جان خطرے میں نظر آئی تو کرنل ڈاکٹر جنید خان نے ہنگامی نیورو سرجری(decompressive craniectomy) کی اور حالت خطرے سے باہر کرنے کے بعد ائیر ایمبولینس پر لندن بھیجا گیا۔ اب آپ پہلے فیصلہ کرلیں کہ ملالہ سی آئی اے کی ایجنٹ ہے یا پاک آرمی کی ؟ کیونکہ اگر گولی لگنا ڈرامہ ہے تو سی ایم ایچ اس ڈرامے کا سب سے بڑا حصہ ہے۔
اب ہمارا قومی حسد؛ وہ بچ کیوں گئی، پورا خاندان انگلینڈ سیٹ ہوگیا، نوبل ایوارڈ اور کروڑوں ڈالرز کی مالکن!!!پوری دنیا بچوں کے لیے ایک نرم گوشہ رکھتی ہے۔ بل گیٹس سے ایک میٹنگ یا ڈنر کے لیے لوگ لاکھوں ڈالرز ہاتھ میں لیکر پھرتے ہیں لیکن وہ ارفعہ کریم سے ملنے کا شائق تھا کیونکہ وہ ایک نمایاں بچی تھی۔ جب دہشتگردوں کے گڑھ میں بیٹھ کر ایک بچی انھیں للکارتی ہے تو وہ عام بچی اسی دن اس ملک کے ڈرپوک سیاستدانوں سے رتبے میں بڑھ جاتی ہے؛ پھر اس ننھی جان کو گولی لگے اور ہنستا چہرہ ٹیڑھا ہوجائے تو یہ ٹیڑھا پن وہ میڈل ہے جو اسکے چہرے پر سج گیا۔ کون نوبل پرائز یا ستارہ جرات کو یاد رکھتا ہے۔آپ کو یاد بھی نہیں ہوگا کہ ایک بنگلہ دیشی کو بھی حال ہی میں نوبل پرائز ملا لیکن جب بھی ملالہ ہنسے گی، بات کرے گی؛ یہ نوبل پرائز چمکتا رہے گا اور اسکی ٹیڑھی ہنسی کے ساتھ کھنکتا رہے گا۔
سب سے اہم بات، ملالہ پاکستان کے لئے کیوں اہم ہے؟ چلیں پھر فرض کر لیتے ہیں کہ سی آئی اے نے ملالہ کو بنایا ہوگا لیکن ظاہر ہے کوئی ایجنسی یہ فیصلہ نہیں کرسکتی کہ کسی کے دماغ میں گولی لگے اور پھر کوئی بھیجے میں گولی کھا کر بچ جائے اور ناں ہی کوئی ایجنسی نوبل پرائز دلوا سکتی ہے۔ اسلئے اب اسکی آواز ایجنسیوں سے بہت اوپر چلی گئی ہے اور یہ آواز بہرحال پاکستان کی ہے اور رہے گی۔ جس ملک کے وزیراعظم کے کپڑے امریکی ائرپورٹ پر اتروا لیے جاتے ہوں اسی ملک کی ملالہ وائٹ ہاؤس کی مہمان بنتی ہے۔ اندازہ کریں کہ کتنی پاور ہے اس ننھی جان کی! ابھی ملالہ بیس سال کی ہے، آکسفورڈ میں پڑھ رہی ہے لیکن پھر بھی پاکستان کی ترقی کے لیے کوشاں ہے۔ اس قطرے کو گہر بننے دیں اور پھر دیکھیں کہ پاکستان کی آواز اس ننھے سے ٹیڑھے مُنہ سے چار دانگ عالم میں کیسے سنی جائے گی۔ ایک آدمی ہوتے ہوئے بھی مجھے یہ کہنے میں فخر ہے؛ “آئی ایم ملالہ”!!!!!
کالم نگار: راؤ کامران علی، ایم ڈی
ہر بدھ وار کو کالم لکھا جاتا ہے۔ اگر پسند آئے تو شئیر کریں۔ مزید کالم پڑھنے کے لئے اس پیج Tez Hay Nok e Qalamکو like کریں شُکریہ۔