حکایت ہے کہ ایک شہزادی اپنی کنیز کے ساتھ جنگل میں سیر کر رہی تھی کہ ایک نوجوان مُسافر کو دیکھا جو بھوک سے نڈہال اور قرب المرگ تھا۔ شہزادی نے اسے کھانا دیا اور وہ انھیں نظر انداز کرکے کھانے پر ٹوٹ پڑا۔ شام ڈھلے شہزادی نے کنیز کو کہا کہ چلو اس بیچارے کو اور کھانا دے آتے ہیں؛ کنیز، جہاں دیدہ تھی، اس نے شہزادی کو روکنے کی کوشش کی لیکن جب شہزادی نے اصرار کیا تو کہا کہ شہزادی آپ رکیں، میں کھانا دے آتی ہوں۔ کنیز کھانا دینے گئی تو مسافر نے اسکی آبروریزی کردی، بیچاری روتی پیٹتی واپس آئی اور شہزادی کو بتایا۔ شہزادی نے تاسف سے کہا کہ صبح تو کتنا شریف لگ رہا تھا، ہماری طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھا؛ کنیز نے تاریخی جملہ بولا، “جب پیٹ خالی ہو تو صرف روٹی پانی پر توجہ ہوتی ہے؛ ہوس کی بھوک، پیٹ کی بھوک مٹنے کے بعد جاگتی ہے”؛ اور یہاں سے موسلو کی انسانی ضروریات کی درجہ بندی کی مشہور زمانہ تھیوری جنم لیتی ہے۔
ابراہم موسلو کا شمار امریکہ کی تاریخ کے بڑے ماہر نفسیات میں ہوتا ہے، وہ ایک یہودی تھا اور دوسری جنگ عظیم کے دوران تباہی بربادی کے بعد انسانی نفسیات پر اسکی تحقیق پڑھنے کے لائق ہے۔ موسلو انسانی نفسیاتی اور مادی ضروریات کو پانچ حصوں میں تقسیم کرتا ہے؛ سب سے پہلے آتی ہیں جسمانی اور جنسی ضروریات؛ پھر آتا ہے احساس تحفظ یعنی نوکری یا کام دھندہ ہو اور قانون کی عملداری کا یقین؛ تیسرے نمبر پر آتا ہے محبت اور جذباتی رشتوں کی ضرورت جیسے محبوب، شادی اور دوست؛ چوتھے نمبر پر سب سے اہم اور تباہ کن انسانی ضرورت ہے عزت نفس، چودھراہٹ، “میں” احساس برتری (یا کمتری)، اعتماد یا اوور کانفیڈینس کا احساس اور پھر سب سے آخر میں آتی ہے خود آگاہی، صوفی ازم؛ یعنی کسی جزا یا انعام کے بغیر خالصتاً کچھ کر دکھانے کا جنون؛ جیسا کہ ایدھی مرحوم تھے یا ڈاکٹر روتھ مارتھا فوُ؛ ایک گوری ڈاکٹر جو کوڑھ کا علاج کرنے پاکستان آئی اور پھر دھرتی کی جوگن بن کر رہ گئی؛ پوری زندگی بس دیا ہی دیا اور کبھی کچھ نہیں لیا۔
پاکستان سے زیادہ تر لوگ اپنی اور اپنوں کی بھوک مٹانے بیرونِ ملک جاتے ہیں؛ انصاف اور قانون کی عملداری ، ترقی کے پکساں مواقع فراہم کرتی ہے؛ شادی کرکے سیٹل ہوکر اور بہت سا پیسہ کما کر اب پہلی تینوں ضرورتیں پوری ہونے کے بعد، موسلو کی “چوتھی ضرورت” ہڑبڑا کر بیدار ہوجاتی ہے کہ اس دولت کا کیا فائدہ اگر لوگ جھک کر سلام نہ کریں؛ پیچھے چھوڑے ہوئے رشتہ دار متاثر نہ ہوں، بلٌے بٌلے نہ ہو۔ لیکن ظاہر ہے کہ وہ یہ سب برملا تو کہہ نہیں سکتے تو اس “ضرورت” کے اوپر خدمت کا لبادا چڑھایا جاتا ہے کہ اپنے وطن اور عوام کی خدمت کرنے واپس جارہے ہیں؛ امریکہ اور یورپ میں جاکر وہاں جو کچھ سیکھا ہے اس کا اطلاق پاکستان میں کرکے اسے بھی ترقی یافتہ بنائیں گے لیکن نمک کی کان میں نمک کے مصداق یہاں آکر اعظم سواتی کی طرح سرکاری زمین پر قبضہ کرکے، غریبوں پر ظلم کرکے، جاگیر دار بننے کی جو پوری زندگی آرزو رہی، اس حسرت کو پورا کرتے ہیں۔ افسوس یہ ہوتا ہے کہ سواتی جیسا انسان ٹیکساس جیسی سخت ریاست میں وکیل (ڈاکٹر آف جیورسپروڈنس) رہا ہے اور اسے یہ پتا ہی کہ اپنے گھر سے ایک قدم زائد جگہ پر باڑ لگانے پر کیسی سخت سزا ہے، پھر بھی پانچ کنال سرکاری زمین پر قبضہ کرلیا اور اپنی اصل اوقات دکھا دی؛ دولت سے خریدی جاگیرداری اور سیاست کا لبادہ اوڑھ کر بھی اندر سے وہی قانون شکن اور چھوٹا انسان نکلا۔
یہ محض اعظم سواتی ہی نہیں؛ ہر ضلع یا تحصیل میں کوئی نہ کوئی “فارن پلٹ” یا تو خود اسمبلی میں بیٹھا ہے یا کوئی ہرکارہ بٹھا رکھا ہے جو جھنڈے والی گاڑی اور دو پولیس گارڈ کا انتظام کرکے سرخرو ہوجاتا ہے۔ خدمت کے بڑے بڑے دعوے کرتے یہ “سُوڈو”سیاستدان ہر بات میں نقص تو انگریزوں کی طرح نکالتے ہیں لیکن اپنی جیب سے خرچ نہ کرنے کی “پرم پرا” شُدھ دیسیوں کی طرح نبھاتے ہیں اور سرکاری مال اڑاتے ہیں۔ ان لوگوں پر خدا کا کتنا احسان ہے اور تقدیر کتنی مہربان ہے کہ سب کچھ ملا لیکن انکا خود پر ظلم یہ ہے کہ یہ موسلو کی “چوتھی اسٹیج” پر اٹک کر رہ گئے اور طاقت کے نشئی بن گئے۔ اگر یہ ذرا شکر ادا کرکے اور حوصلہ کرکے پانچویں سیڑھی پر قدم رکھ دیں تو دنیا انکے قدم چومے گی اور تاریخ کے پنے انکا ذکر سونے کے الفاظ سے لکھیں گے۔ گزشتہ سال امریکہ کی ایک بے نام ریاست آئیڈاہو Idaho کے ایک چھوٹے سے قصبے بلیک فوٹ کے ایک چھوٹے سے اسپتال میں اپنے دوست فہیم رحیم کے ساتھ عبدالستار ایدھی کی دیو قامت تصویر لگی دیکھ کر موسلو کی تھیوری کی پانچویں اسٹیج پر یقین آگیا۔ دنیا کے کونے کونے میں انکی عزت ہے اور رہے گی لیکن جو لوگ طاقت کی ہوس میں چوتھی اسٹیج پر ہی اٹک گئے وہ اعظم سواتی کی طرح بے نقاب ہوتے رہیں گے۔
کالم نگار: راؤ کامران علی، ایم ڈی
ہر بدھ وار کو کالم لکھا جاتا ہے۔ اگر پسند آئے تو شئیر کریں۔ مزید کالم پڑھنے کے لئے اس پیج Tez Hay Nok e Qalam کو like کریں شُکریہ-