کینسر دورِ حاضر کی سب سے خوفناک بیماری ہے۔ گو کہ کئی کینسر جان لیوا نہیں ہوتے لیکن کینسر نام ہی خون خشک کرنے کے لیے کافی ہے۔کینسر جان لیوا ہونے کی وجہ سے بدنام نہیں کیونکہ ایکسیڈنٹ یا ہارٹ اٹیک سے زیادہ لوگ مرتے ہیں۔ اسکی دہشت، اسکا چُپکے سے خاموشی سے پھیلنا ہے؛ آس پاس کے اعضا میں، خون کی نالیوں میں، ہڈیوں میں اور جب یہ تباہی مچا کرمنظرِ عام پر آتا ہے تو عموماً موت کے پروانے پر دستخط کرنے آتا ہے۔ کینسر کا آج کی دنیا میں سب سے بہترین علاج اسکی بر وقت تشخیص ہے اسی لئے روٹین میں سینے، پراسٹیٹ اور بڑی آنت کو چیک کیا جاتا ہے، ان پر نظر رکھی جاتی ہے مبادا چُپکے سے یہ ہمیں اندر ہی اندر کھا ہی نہ جائیں۔
تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے جس میں کسی عقل کل نے ایسا کینسر کا بیج بویا کہ جب وہ اپنی جڑیں ملک و قوم کے بدن میں پھیلا کر اوپر آیا تو سوائے ماتم کرنے اور کف افسوس ملنے کے کوئی چارہ نہ رہا۔ ہمارے لیے اس کی سب سے بڑی مثال “مردِ مومن مردِ حق” ہے؛ میٹرک پاس “دانشور” کی چند چھٹانک عقل پورے ملک میں ہیروئن، کلاشنکوف اور دہشتگردی کا موذی کینسر پھیلا گئی اور اب ایک امریکی گورے ذہنی مریض کی پھیلائی گئی نفرت کا کینسر پاگل ہاتھی کی طرح اپنی ہی قوم کو کچل رہا ہے۔ مسلمانوں اور غیر گوروں کے خلاف پھیلائی نفرت ایسے “بیک فائر” کر رہی ہے کہ شدت پسند گورے اپنے ہی معصوم اور بے گُناہ گوروں، بالخصوص بچوں کی جان سے کھیل رہے ہیں۔امریکہ میں یہ نفرت کی لہر عمومی طور پر کسی خاص ملک یا قوم کے لیے نہیں لیکن چند شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار نام لیکر پاکستان اور پاکستانی امریکیوں کو تختِ ستم بنا رہے ہیں اور ان میں سب سے نمایاں نام “ڈینا روہراباکر” کا ہے۔
ڈینا روہراباکر، امریکی کانگریس کا طاقتور ترین اور متنازعہ ترین رکن ہے، صدر ریگن کے اسسٹنٹ پریس سیکرٹری اور صدر سینئر بش کے سپیچ رائٹر کی حیثیت سے وائٹ ہاؤس میں اپنے پاؤں جمائے۔ اسکے بعد 1989 سے آج تک مسلسل کانگریس کا الیکشن بھاری لیڈ سے جیت رہا ہے۔ ٹرمپ کا ساتھی ہونے کے ساتھ ساتھ روس کا ایجنٹ کہلایا جاتا ہے اور روسی صدر پیوٹن کا بھی قریبی ساتھی سمجھا جاتا ہے اور اسی بدنامی کی وجہ سے امریکہ کا سیکرٹری آف دی اسٹیٹ جوکہ صدر کے بعد سب سے اہم عہدہ سمجھا جاتا ہے، بنتے بنتے رہ گیا۔ ڈینا نے 2011 میں پاکستان کے خلاف زہر افشانی شروع کی جو کہ بڑھتے بڑھتے پاکستان کے اندرونی معاملات تک آگئی ہے جس میں “بلوچستان کی آزادی” اور “کراچی کی آزادی” شامل ہے۔ ڈینا کے مطابق امریکی امداد سے پاکستان ،دہشتگردوں کا مقابلہ کرنے کی بجائے دہشتگرد پال رہا ہے۔ امیگرینٹس کے لیے بھی ڈینا کی نفرت اور اس حوالے سے متعدد پریشان کن واقعات ریکارڈ پر ہیں۔
یہ مانا کہ امریکہ میں آزادی اظہار ہے تاہم کسی کو بھی نفرت پھیلانے کی اجازت نہیں، خصوصاً ہمارے ملک اور ہم وطنوں کے بارے میں۔ شاید ابھی ہم میں سے کچھ لوگوں کو یہ باتیں خطرناک نہ لگیں لیکن “امریکہ میں تبدیلی” کا یہ نفرت انگیز نعرہ ہاتھوں ہاتھ بِک رہا ہے۔ پیوٹن کے جاسوس کے طور پر جو کالک ڈینا روہراباکر کے مُنہ پر ملی گئی ہے وہ اسے پاکستان پر تھوپنے کے چکر میں ہے۔ اگر یہ خدانخواستہ اپنے ارادوں میں کامیاب ہوگیا تو نفرت کی ایک بڑی لہر چلا دے گا۔ کیلیفورنیا کی “اورینج کاؤنٹی” امیگرینٹس سے بھری پڑی ہے۔ ڈینا کا رواں سال کانگریس کے الیکشن میں مقابلہ کیا جاسکتا ہے، اسکے مقابلے میں بہترین امیدوار کے ہاتھ مضبوط کیے جاسکتے ہیں۔ پاک پیک PAKPAC (پاکستانی امریکن پولیٹیکل ایکشن کمیٹی) ایسے نفرت انگیز لوگوں کے سامنے سینہ تان کے کھڑی ہے۔ اگر آج بھی کمیونٹی تماشائی بنی رہی تو ہماری آنے والی نسلوں کا امریکہ میں رہنا ناممکن ہوجائے گا۔ یہ جنگ ہماری نسلوں کی بقا کی ہے۔ اگر ایسے لوگ ہماری اگلی نسلوں کا یہاں جینا محال کردیں گے تو ہم کہاں جائیں گے؟ واپس پاکستان ؟ سوچنا شرط ہے اور بات سمجھ میں آئے تو عمل کرنا اور اجتماعی کوشش کرنا فرض ہے اور ہر اس تنظیم یا جماعت کا ساتھ دینا فرض ہے جو ڈینا روہراباکر جیسوں کے سامنے سینہ سپر ہے۔
کالم نگار: راؤ کامران علی، ایم ڈی
ہر بدھ وار کو کالم لکھا جاتا ہے۔ اگر پسند آئے تو شئیر کریں۔ مزید کالم پڑھنے کے لئے اس پیج Tez Hay Nok e Qalam کو like کریں شُکریہ۔