نیا پاکستان پرانے مسائل

عمران خان نے عثمان بزدار کو وزیراعلیٰ بنایا، حیرت ہوئی لیکن وہی پرانا ڈائیلاگ کہ عمران گوہرشناس ہے مثلاً وقار، وسیم اور انضمام کو بھی ایسے ہی ڈھونڈ نکالا، چلیں مان لیا؛ پسماندہ علاقے سے ہونا چاہئیے، چلیں مان لیا؛ حکومت کا حصہ ہونے کے باوجود اپنے علاقے میں بجلی نہ لا سکے جو کہ نااہلی ہے لیکن اسے میرٹ بنا دیا گیا، چلیں مان لیا کہ ن لیگ کرپٹ تھی اسلئے بجلی نہیں آئی؛ پرتعیش گھر میں رہ رہے ہیں، چلیں حق بنتا ہے؛ جہاز میں فیملی کو بھی “جھولے” دے دئیے، چلیں کوئی بات نہیں، نئی نئی خوشی ہے؛ ہسپتالوں کا دورہ کیا، چلیں مان لیا کہ مقصد اچھا تھا اور بچی کی بدقسمتی تھی کہ وقت پر اسپتال نہ پہنچ سکی؛ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکپتن مزار پر کیا لینے گئے؟؟؟؟ تونسہ شریف، ملتان شریف کے قریب ہے جو کہ اولیا کا شہر ہے تو وہاں کیوں نہیں گئے؟ لاہور داتا کی نگری ہے، سی ایم ہاؤس کے قریب ہے، وہاں کیوں نہیں گئے؟ تو کیا پاکپتن شریف بابا فرید گنج شکر کے لئے گئے تھے یا خاتون اوّل کا پیر بھائی بننے؟ بزدار صاحب نے بھی سوچا ہوگا کہ “میں تو کسی چھوٹی موٹی وزارت کا بھی امیدوار نہیں تھا تو یہ پیرنی جی کے “استخارے” کا کمال ہے”؛ اب ایسا بندہ آئندہ بھی اس کرم کا محتاج رہے گا؛ گویا کہ وزیراعلیٰ کی ریڑھ کی ہڈی (اسپائن) مضبوط نہیں کہ وہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہوسکیں یا کسی معاملے پر اسٹینڈ لے سکیں یا ان خوشامدوں سے باہر آ سکیں۔

اسکے بعد آتی ہے پاکپتن کے مانیکا خاندان کی پولیس سے چپقلش; میڈیا اس کے بارے میں بہت کچھ کہہ چکا سو دہرانے کی ضرورت نہیں تاہم چند باتیں اہم ہیں
۱- پولیس افسران سے تفتیش کوئی مدعی پارٹی کا بندہ نہیں کرسکتا، یہ جرم ہے۔
۲-ایک پڑھے لکھے پولیس آفیسر رضوان گوندل کی اسٹینڈ لینے کی ہمت اور صلاحیت وزیراعلیٰ سے زیادہ ہے۔
۳- شہباز شریف خاتون اوّل (اور بھابھی) کو انکار کرچکا تھا کہ وہ مریم نواز کے میڈیکل کالج میں داخلے کی مدد نہیں کریگا جہاں سے خاندانوں کی پہلی چپقلش شروع ہوئی جبکہ وزیراعلیٰ بزدار صاحب مانیکا خاندان کیلئے پولیس پر پریشر ڈالنے سے لیکر پاکپتن حاضری تک، خاتونِ اول کی خوشنودی کے خواہاں ہیں۔
۴- مانیکا خاندان کا علاقے پر اثر ،صدیوں سے ہے اور اب انکی حرکات و سکنات نیشنل اور انٹرنیشنل میڈیا پر آتی ہیں۔ نئی نسل کو آگے لیکر جانے کی ضرورت ہے۔ خاور مانیکا اور بشریٰ بی بی کی بڑی عمروں کے باعث انکی مزاروں پر ننگے پاؤں حاضری اور دیگر عوامل اتنے قابلِ توجہ نہیں جتنے اب جواں سال بیٹی کے ہوں گے۔ نیک اور عبادت گزار ہونے میں اور یہ سب کرنے میں فرق ہے۔قوم کی نوجوان نسل کو آگے لیکر جانے کی ضرورت ہے مزاروں پر چکروں کی نہیں۔ (فتوے اور گالیاں دینے سے پہلے جان لیں کہ میرا تعلق بریلوی گھرانے سے ہے)

اب آتی ہے کارکردگی کی بات، پہلے سو دن پی ٹی آئی کے لئے اہم ہیں۔ کاش کہ جیتنے کے فوراً بعد ہی عثمان بزدار کو بتا دیا جاتا کہ وہ وزارتِ اعلیٰ کے امیدوار ہیں تاکہ ابھی تک اسے خواب ہی نہ سمجھ رہے ہوتے۔ دنیا کی ہر فیلڈ میں پہلے نوے دن نئے بندے (ٹرینی) کی تربیت کے ہوتے ہیں جسے “پروبیشن پیریڈ” کہتے ہیں جبکہ اگر پہلے سو دن میں نتائج لینے ہوں تو “ٹرینی” کو نہیں بلکہ انتہائی تربیت یافتہ بندے کو لگایا جاتا ہے۔ عثمان بزدار کے کیس میں یہ بہت بڑا تضاد ہے اور یہ انکے ساتھ بھی زیادتی ہے کہ تربیت کا موقع دئیے بغیر نتائج کی امید رکھنا۔ اور وزیراعلیٰ کے عہدے کی تربیت تو الگ بات، وہ دو ماہ پہلے پی ٹی آئی میں شامل ہوئے تو انھیں تو اپنے ساتھی وزیروں کی شخصیات تک کا نہیں پتا؛کون مخلص ہے، کون میٹھی چھری ہے؟؛ کون باتوں کا ماسٹر ہے اور کون کام کا؟ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ سالوں سے مال و دولت پی ٹی آئی پر لٹانے والے اسے ناکام کرکے خود آگے آنا چاہیں تو بزدار صاحب کی نا تجربہ کاری کے باعث یہ ممکن ہے۔ جنوبی پنجاب میں لاہور کے خلاف ایک تلخی سی پائی جاتی ہے جو کہ تونسہ جیسے پسماندہ علاقوں میں زیادہ ہے اسلئے بیوروکریسی اور بھانت بھانت کے سیاستدانوں سے نمٹنے کے لئے بھی خصوصی تربیت اور تجربے کی ضرورت ہے۔ چلتے چلتے آپکو ایک قصہ سناتے ہیں۔ یونیورسٹی آف سنسناٹی کی پین فیلوشپ (درد کا سرجری سے علاج) کے پروگرام ڈائریکٹر ڈاکٹر احمد منیر تھے جو کہ لاہور سے ہیں اور زبردست انسان ہیں۔ امریکہ میں دو دہائیوں سے مقیم، جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے ایک انستھیزیالوجسٹ جو کہ پین فیلوشپ کرنا چاہتے تھے، نے مجھ سے رابطہ کیا تو میں نے مشورہ دیا کہ ڈاکٹر منیر کے پروگرام میں اپلائی کرو؛ انھوں نے سادگی سے فرمایا، نہیں یار وہ “لاہوری” ہے، نہیں دیگا اور میرا قہقہہ نکل گیا۔ امریکہ میں دنیا کی ہر قوم، ہر مذہب اور غیر مذہب کے ساتھ کام کرنے کے بعد بھی پرانے اندیشے جان نہیں چھوڑتے۔ دعا ہے کہ عثمان بزدار کامیاب ہوں؛ جنوبی پنجاب کے وڈیرے سیاستدان ترقی نہیں چاہتے تھے اب ایک عام آدمی کی بطور وزیراعلیٰ کامیابی ہم سب کی کامیابی ہوگی۔

کالم نگار: راؤ کامران علی، ایم ڈی
ہر بدھ وار کو کالم لکھا جاتا ہے۔ اگر پسند آئے تو شئیر کریں۔ مزید کالم پڑھنے کے لئے اس پیج Tez Hay Nok e Qalamکو like کریں شُکریہ-

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *