اور عمران جیت گیا!!!!! کمال ہوگیا!!!!
دنیا کی سب الہامی اور دنیاوی کتابیں ایک بات پر متفق ہیں اور وہ یہ ہے کہ مستقل مزاجی اور توجہ کے ساتھ درست سمت میں مثبت توانائی اور ارادے کے ساتھ جستجو کی جائے تو منزل مل جاتی ہے۔ مشہور ناول نگار پاؤلو کوئیلو اپنے آفاقِ زمانہ ناول “دی الکیمسٹ” میں لکھتا ہے
And, when you want something, all the universe conspires in helping you to achieve it.
اسکا ترجمہ فلم “اوم شانتی اوم” میں شاہ رخ خان کچھ ایسے کرتا ہے
اتنی شدت سے میں نےتمہیں پانے کی کوشش کی ہے
کہ ہر ذرے نے مجھے تم سے ملانے کی سازش کی ہے
گویا مستقل مزاجی کے باعث خدا کی رضا آپکے ساتھ ہوتی ہے اور پوری کائنات آپکی مدد کرتی ہے۔ نشتر میڈیکل کالج کی مسجد کے امام فرماتے تھے کہ “جب شیطان بھی سچے دل اور مستقل مزاجی سے کسی کو بہکانے کی کوشش کرے تو اسکی کوششوں میں بھی برکت آجاتی ہے”۔
ہم جیسے مڈل کلاس پرفیشنلز جب کافی مشکلات طے کرکے بیرونِ ملک آتے ہیں تو مستقل مزاجی اور مسلسل محنت اور تگ ودو سے بڑی حد تک آگاہ ہوتے ہیں لیکن ہماری کامیابی کے اعداد و شمار(odds) بڑی حد تک واضح اور ٹھوس ہوتے ہیں مثلا جس نے میٹرک میں بورڈ ٹاپ کیا، اسکے نوے فیصد چانس ہیں ڈاکٹر یا انجنئیر بننے کے، اب جو میڈیکل کالج چلا گیا پچاسی فیصد چانسسز ہیں ڈاکٹر بن کے نکلے گا؛ اسی طرح کلاس کے ٹاپ بیس ڈاکٹرز دنیا کے کسی بھی ملک کا میڈیکل کا امتحان پاس کرلیں گے۔ لیکن مستقل مزاجی اور محنت کے ساتھ ایسی جنگ لڑنا جس میں کچھ “لکھت پڑھت نہ رسید نہ کھاتہ”ہو، تو بائیس سال تک کھڑے رہنا کسی عام بندے کا کام نہیں۔ عمران کی جیت پوری قوم کی جیت کے ساتھ ساتھ ایک عام انسان کی جیت اسلئے بھی ہے کہ اگر وہ ہار جاتا تو کبھی کوئی دوبارہ اس طرح کوشش نہ کرتا۔ ہماری قوم نے کتنے الیکشنز دیکھے ہیں لیکن تاریخ میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی کہ پوری دنیا میں پاکستانی خوشیاں منا رہے ہیں، پُرجوش ہیں، پر امید ہیں۔
میں سیاسی طور پر جیالا یا متوالا بننے پر یقین نہیں رکھتا ہوں اور نہ ہی کاملیت پر کیونکہ ہمارے سیاستدان انسان ہیں اور انسان غلطیاں کرتے ہیں اور ہر سیاستدان کی تعریف کے ساتھ تنقید بھی ضروری ہے لیکن جب نواز شریف اوبامہ کے سامنے بیٹھ کر احمقوں کی طرح پرچیاں پڑھتا رہا اور نائب صدر جو بائیڈن نواز شریف کے کاندھے پر کسی “چھوٹے” کی طرح ہاتھ رکھ کر اسے سمجھاتا رہا تو امریکہ میں ہم پاکستانی شرمندگی سے زمین میں گڑ کر رہ گئے۔ پوری دنیا میں ہمارے وزیراعظم کا ٹھٹھا ہورہا تھا۔ اس وقت احساس کمتری کے شکار دماغ میں خیال آیا کہ اس پرچی والے انسان کی جگہ اگر دبنگ عمران خان ہوتا تو کیا غضب بولتا اور کیا خوب جچتا!!! پہلی بار دل سے دعا نکلی کہ کاش اوول آفس (وائٹ ہاؤس) میں اس کرسی پر دنیا عمران کو بیٹھا دیکھے اور آج لگتا ہے کہ یہ دعا پوری ہونے والی ہے؛ الحمدلّلہ! ابابیل کی چونچ میں ایک قطرے کے مصداق، اس پیج “تیز ہے نوکِ قلم” پر پچھلے دو سالوں میں پندرہ کے لگ بھگ کالمز عمران خان پر لکھے گئے؛ ایک دو میں اسکی “واٹ” لگائی گئی جب وہ “انّے واہ” شادیاں کررہا تھا لیکن مجموعی طور پر عمران کے مشن میں شامل ہوکر یہ قطرے کے برابر کردار ادا کرنے پر خوشی ہے۔ آگے بھی ایسا ہی ہوگا کہیں تعریف تو کہیں کلاس۔
اب آتے ہیں “عمرانی حکومت” کی طرف! آنے والے دنوں میں عمران خان کے لئے مشکلات کا کنواں کھد رہا ہے۔ اس کنوئیں میں عمران اگر گرا تو اپنی طبیعت کے باعث گرے گا۔ عمران کو نہ تو حکم سننے کی عادت ہے اسلئے جلد ہی اسٹیبلشمنٹ سے سینگ لڑائے گا اور نہ ہی “اپنوں” کو نوازنے کی، اس لئے بہت سے لوگ مسائل پیدا کریں گے۔ حزب اختلاف بہت مضبوط ہے؛ ہر لمحہ تختہ الٹنے کا خدشہ رہے گا۔ ان سب میں، سب سے اہم کام اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ایک حد قائم کرکے چلنا ہوگا۔ اسٹیبلشمنٹ وزارتِ دفاع عموماً اپنے ہاتھ میں رکھتی ہے جبکہ وزارتِ خارجہ میں انڈیا، امریکہ، چین، سعودی عرب اور افغانستان سے متعلقہ پالیسیوں کے معاملے میں حساس ہے۔ اس ٹاپک پر کتابیں لکھی جاسکتی ہیں کہ یہ غلط ہے، منتخب حکومت کو یرغمال بنانے کے مترادف ہے وغیرہ وغیرہ لیکن بہتر یہی ہے کہ اتنے “واجبی مینڈیٹ” کے ساتھ، مندرجہ بالا ممالک میں پالیسیاں اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ملکر ہی بنائی جائے۔ کیری لوگر بل جیسی “حرکات” سے پرہیز کیا جائے۔ جب وزیراعظم کرپٹ نہیں ہوگا اور اسکے ساتھ ساتھ “حماقتوں” اور “ایڈوینچرز”سے اجتناب کرے گا تو آہستہ آہستہ اسٹیبلشمنٹ، منتخب حکومت میں اپنا اسٹیک کم کرلے گی۔ الیکشن جیتنے کے اگلے دن واشنگٹن ڈی سی کے ایک تھنک ٹینک نے الیکشنز کے نتائج سے متعلق راقم سے غیر رسمی گفتگو کی۔ شاید آپکو یقین نہ آئے لیکن یہ “کنفیوژن” واشنگٹن ڈی سی میں بھی ابھی تک ہے کہ یہ بندہ جمائما سے شادی کرنے والا لبرل “یہودی ایجنٹ” ہے یا قادیانیوں کے خلاف برملا بیان دینے والا اور طالبان کا آفس کھلوانے والا“طالبان خان”؟ لیکن مزے کی بات ہے کہ یہ دونوں چہرے ہی نہایت “ڈیمانڈ” میں ہیں۔ مغرب، آکسفورڈ سے پڑھے “یہودی ایجنٹ” کو ویلکم کر رہا ہے تاکہ اس پڑھے لکھے سیاستدان سے دوطرفہ امور پر بات بڑھائی جائے جبکہ امریکہ کے تھنک ٹینکس “طالبان خان” کے طالبان میں اثر ورسوخ کو افغانستان سے امریکی فوج نکالنے کے لئے استعمال کرنے کے لئے بے تاب ہیں۔ عمران خان اگر وزارتِ خارجہ کا وزیر کسی بہترین بندے کو لگا سکا اور امریکہ میں کوئی زبردست سفیر لگا سکا تو بہت سے مسائل پہلے چند مہینوں میں ہی حل ہو جائیں گے۔ ٹرمپ کی شخصیت کی بھی بہت سی جہتیں عمران خان سے ملتی ہیں اور ٹرمپ دوسری بار پھر منتخب ہوگا۔ پاکستان اور امریکہ کا تعلق مضبوط ہوسکتا ہے اور مضبوط ہونا چاہئیے۔ دعا ہے کہ قوم کی امیدیں حقیقت میں بدلیں اور وہی پاکستان بنے جہاں پوری دنیا سے لوگ نوکریاں ڈھونڈنے آئیں! نئے وزیراعظم کو قوم کا سلام! پاکستان زندہ باد!
کالم نگار: راؤ کامران علی، ایم ڈی
ہر بدھ وار کو کالم لکھا جاتا ہے۔ اگر پسند آئے تو شئیر کریں۔ مزید کالم پڑھنے کے لئے اس پیج Tez Hay Nok e Qalam کو like کریں شُکریہ-