اگر آپ اپنے گھر میں باورچی خانے میں چولہے کے سامنے کھڑے ہیں تو آپ فیصلہ کرسکتے ہیں کہ انڈہ ابال کر کھائیں یا فرائی کرکے؛ چائے بنائیں یا کافی؛ اسے میڈیکل سائنس کی زبان میں “سریبرل ڈیسیژن” کہتے ہیں یعنی سوچ سمجھ کر کئے گئے ارادی فیصلے۔ تاہم اگر یہ سب بناتے ہوئے آپ کا ہاتھ چولہے میں چلا جائے تو اب آپ کے پاس یہ سوچنے کا وقت نہیں کہ “ فوراً ہاتھ آگ سے باہر نکال لیں یا چند ایک انگلیوں کا باربی کیو بننے دیں”؟ آپ سوچے سمجھے بغیر ایک سیکنڈ کے سوویں حصے میں ہاتھ آگ سے باہر نکال لیں گے۔ اسے “سپائنل ریفلکس ایکشن” کہتے ہیں؛ یعنی “اضطراری یا غیر ارادی فیصلے” آپ نے اکثر اینکروں سے سنا ہوگا کہ عام آدمی کو سیاستدانوں نے ذہنی غلام بنا لیا ہے اور اسکا مطلب یہی ہے کہ مخصوص حالات پیدا کرکے ہمارے ُ”دماغی فیصلے” کسی کی مرضی کے تابع یعنی “غیر ارادی فیصلوں” میں تبدیل کئے جاسکتے ہیں۔ مثلاً آپ اپنی اسٹڈی میں بیٹھے ہیں اور ایک دم آپکے بچے کی دردناک چیخ کی آواز سنائی دیتی ہے، آپ باہر جاکر دیکھتے ہیں تو آپکا بچہ تڑپ رہا ہے اور آپ کو دیکھ کر ایک دم لمبی سانس کھینچ کر روک لیتا ہے؛ گویا تکلیف کے مارے سانس نہیں آرہی اور پاس کھڑے اپنے بھائی کی طرف انگلی کا اشارہ کرکے “نزعی بیان” دیکر نیچے گر جاتا ہے۔ آپ بغیر پوچھے، پاس کھڑے اپنے دوسرے بچے پر تھپڑوں اور جوتوں کی بارش کردیتے ہیں اور یہ دیکھ کر تڑپتا بچہ بالکل ٹھیک ہوکر بیٹھ جاتا ہے اور آپکو پتا چلتا ہے کہ جس بیچارے کی آپ نے اتنی دھلائی کی ہے اس نے بھائی کو صرف چُٹکی کاٹی تھی لیکن تڑپتے بچے کو پتا تھا کہ اگر وہ آپ کو چُٹکی کی شکایت لگائے گا تو آپ زیادہ سے زیادہ دوسرے بچے کو جھڑک دیں گے اور صرف جھڑکنے سے بہن بھائیوں کی “دشمنی کی آگ” نہیں بھجتی؛ اس لئے اس نے بے مثال اداکاری کرکے آپکی “سوچ سمجھ” کی صلاحیت کو ریفلیکس ایکشن (غیر ارادی فیصلے) میں بدل کر مطلوبہ ہدف حاصل کرلیا۔ اسی طرح ایک دن آپ دفتر سے گھر جاتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ بیگم سامان باندھ کر غصے میں بیٹھی ہیں کہ گھر چھوڑ کر جارہی ہیں۔ آپ وجہ پوچھتے ہیں تو آپکی چھوٹی بہن کی طرف اشارہ کر دیتی ہیں۔ آپ “ریفلیکس ایکشن” میں بہن کی پٹائی کر دیتے ہیں اور بعد میں پتا چلتا ہے کہ بیچاری بہن کو رات کے سالن میں کوئی “نظر انداز شدہ” بوٹی مل گئی تھی جو اس نے آپکی بیگم کی خدمت میں پیش کرنے کی بجائے خود کھالی۔ اب آپ سوچیں کہ اگر بیگم اتنا ڈرامہ کرنے کی بجائے آپکو سیدھی، بوٹی کی شکایت لگاتیں تو آپ کم ازکم پٹائی نہ کرتے لیکن شدید ماحول بنا کر دماغی فیصلے کی جگہ غیر ارادی فیصلے کو اکسایا گیا۔
میٹرک کے زمانے سے اس خاکسار نے سیاسی کارکن کے طور پر کام شروع کیا۔ جلوسوں میں نعروں سے لیکر گھر گھر پمفلٹ بانٹنے تک اور پولنگ ایجنٹ بننے سے لیکر الیکشن میں ووٹروں کو موٹر سائیکل پر پولنگ اسٹیشن پہنچانے تک اور پھر سیاستدانوں کے لئے تقریر لکھنے سے لیکر اسٹیج پر شعلہ بیانی تک کا موقعہ بھی ملا۔ ہر الیکشن میں یہی دیکھنے میں آیا کہ ہار جیت کے لگ بھگ اسی سے نوے فیصد تک فیصلے آخری تین دنوں میں ہوتے ہیں۔ ان تین دنوں سے پہلے تک سیاسی امیدوار حلقوں کے چکر لگاتے ہیں،جان بوجھ کر بے عزتیاں کرواتے ہیں، ایسے اداکاری کرتے ہیں جیسے ماضی کی غلطیوں پر واقعی شرمندہ ہیں اور کسی “ساجھے ماجھے” نے بھرے بازار میں بیس تیس لوگوں کی موجودگی میں بے عزتی کرکے انکی آنکھیں کھول دی ہیں۔ عوام کا سارا غصہ نکلوا کر، انکے گلے چیخوا کر اور انکی زبانیں تھکا کر آخری تین دنوں میں “فرنٹ فٹ” پر ایسے کھیلتے ہیں کہ سب کے دماغی فیصلے “غیر ارادی فیصلوں” میں تبدیل کرکے مطلوبہ ہدف حاصل کر لیتے ہیں۔ آخری تین دنوں میں اثرانداز ہونے کے تین طریقے زیادہ اہم ہیں۔
۱- روپیہ؛ فی ووٹ کم ازکم دس ہزار روپیہ مل جاتا ہے۔ ایسے میں فاقوں سے پریشان بیوی اور بھوکے بچے سوچنے پر مجبور کر دیتے ہیں کہ جیتنا تو دونوں طرف سے کسی “کرپٹ” نے ہی ہے تو آپ بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھو لیں۔
۲- سیاستدان آپکے پاس کوئی ایسا بندہ بھیجتا ہے جس کا آپ پر احسان ہو مثلاً وہ تھانہ کچہری یا ہسپتال میں آپکے کام آیا ہو اور آپ احسان کے مارے ووٹ دے دیں
۳- برادری کا دباؤ؛ کہ اپنا مارے بھی تو مار کر دھوپ میں ڈالتا ہے۔ تو ووٹ تو برادری کے بندے کو ہی دینا ہے۔
مندرجہ بالا وجوہات کے باعث پریشر میں آکر” دماغی فیصلے” کسی کے ہاتھ میں دینے کی ضرورت نہیں۔ ووٹ کے بدلے ملنے والے چند ہزار روپے کتنا عرصہ چلیں گ؟ لیکن اسکے مضر اٹرات آپکی اگلی نسل کو کھا جائیں گے۔ جو محسن ہے اس سے بھی بحث نہ کریں، اسی طرح برادری سے بھی نہ الجھیں، لیکن اس سب کے بعد بھی ووٹ اسے دیں جو ملک کے لئے اچھا ہے۔ میری ذاتی رائے ہے کہ اس بار عمران خان کو موقع ملنا چاہئیے؛ اگر اسٹیبلشمنٹ اسکے ساتھ ہے پھر بھی اور اگر اسکے ساتھ کئی لوٹے سیاستدان ہیں پھر بھی۔ یہی لوٹے نواز اور زرداری کے ساتھ بھی تو تھے جب آپ نے موقعہ دیا تو اسی ٹیم کو “مختلف کپتان” کے ساتھ کھلانے میں کیسا رسک؟ ہارتے تو پہلے ہی آرہے ہیں، شاید یہ کپتان لولی لنگڑی ٹیم کے ساتھ ہی جتا دے؛ پہلے بھی تو ایسا کئی بار کرچکا ہے۔ میرے نزدیک بحث یہ نہیں ہے کہ نواز کرپٹ ہے یا نہیں لیکن کم ازکم نااہل ضرور ہے۔ پرچیاں پڑھ کر بھی مدعا نہ بیان کرسکنے والا اور اس نااہلیت کے بعد بھی خود ہی وزیر خارجہ بن بیٹھنے والا۔ خدا کے لئے پُل اور سڑک سے باہر آجائیں اور تھوڑا دور کا سوچیں؛ ایک مہینے پہلے جتنا پٹرول سو روپے کا ملتا تھا اب ڈالر بڑھنے سے ایک سو تیس کا ملتا ہے جبکہ آپکی تنخواہ تیس فیصد نہیں بڑھی اور ناں ہی آپکے بچوں نے تیس فیصد کھانا کم کیا اور نہ ہی دوائی تیس فیصد کم ہوئی۔ یہ فرق ابھی مزید بہت بڑھے گا۔ کبھی کسی سفارتکار سے ملاقات ہو تو پوچھئے گا کہ سعودی عرب اور ابوظہبی کے کراؤن پرنسسز (ولی عہد) کے پاکستانی ملازمین بارے کیا خیالات ہیں؛ انکے تاج پہننے کی دیر ہے اور سب پاکستانی واپس اپنے ملک؛ اسی طرح زیرو خارجہ پالیسی کے باعث ٹرمپ، ویزہ ہولڈرز تو کیا ایک ہزار کے لگ بھگ گرین کارڈ ہولڈرز کو رواں سال پاکستان واپس بھیج رہا ہے۔ یہ سب لوگ تو اپنے ساتھ مال دولت لیکر آئیں گے لیکن ان کے آنے کے باعث زرمبادلہ کم ہوگا اور اسکا شکار ہونگے آپ عام عوام جو آج بریانی اور چند ہزار میں ووٹ بیچ رہے ہیں۔
فرات کے کنارے بکری کا بچہ بھوکا مرنے پر عمر ذمہ دار تب تھا جب وہ عوام کے ووٹ سے خلیفہ نہیں چُنا گیا تھا۔ اب آپ کے بچے کی بھوک، بیماری کا علاج نہ ہونے یا اعلیٰ تعلیم نہ ملنے کے ذمہ دار آپ خود ہونگے کیونکہ آپ اپنے ووٹ سے حکمران خود چُن رہے ہیں۔ بیلٹ پیپر پر مہر لگاتے وقت سارے پریشر اور قسموں وعدوں کو بھلا کر پاکستان کو ووٹ دیں!!!! خدا آپکا بھلا کرے!!!
کالم نگار: راؤ کامران علی، ایم ڈی
ہر بدھ وار کو کالم لکھا جاتا ہے۔ اگر پسند آئے تو شئیر کریں۔ مزید کالم پڑھنے کے لئے اس پیج Tez Hay Nok e Qalam کو like کریں شُکریہ-