ٹھگز آف پاکستان

ترن آدرش ہندوستانی فلموں کا ایک متعصب تجزیہ نگار ہے۔ عامر خان سے اسکا تنازعہ 2012 میں اسکی ایک ٹویٹ سے شروع ہوا جس کے مطابق اس وقت کی اسٹار ریٹنگ میں عامر خان پہلے ،سلمان خان دوسرے ،شاہ رخ خان تیسرے ،ریتھک روشن چوتھے اور اجے دیوگن پانچویں نمبر پر تھا اور ترن کی ٹویٹ کے مطابق عامر خان میں ایسے کوئی خوبی نہیں یا تارے نہیں جُڑے تھے کہ وہ پہلے نمبر پر آئے جبکہ اجے دیوگن کو پہلے پر آنا چاہئے تھا۔ خوش قسمتی سے اسکے بعد عامر خان پی کے اور دنگل جیسی فلموں سے سو کروڑ کلب پر اچھلنے والوں سے بہت اوپر ہزار کروڑ کلب میں شامل ہوگیا اور ترن آدرش کو کوئی موقع نہ ملا۔ ناقابل تسخیر ہونے کی اپنی طاقت اور فالونگ ہوتی ہے؛ دنگل کے بعد عامر خان پر تنقید یا پچیس مارچ 1992 کے دن عمران خان پر کیڑے نکالنا، مداحوں سے گالیاں کھانے والی بات تھی۔اس لئے حاسد ایسے موقعوں پر ناصرف منہ بند رکھتے ہیں بلکہ بظاہر آپکے ساتھ لڈیاں ڈالتے ہیں۔گزشتہ ہفتے عامر خان کی فلم” ٹھگز آف ہندوستان” ریلیز ہوئی اور موقع دیکھ کر ترن آدرش نے اپنی ٹویٹس سے اس فلم کے بزنس پر تباہی پھیر دی۔ گو کہ کہانی تھوڑی سی کمزور ہے لیکن بہرحال یہ فلم دیکھنے کے لائق ہے؛ بہترین ایکٹنگ، زبردست ایکشن، مزاح اور اٹھارویں صدی کے سیٹ اور بحری جہازوں پر بے پناہ خرچ، واقعی انٹرٹینمنٹ دینے والا اور پیسے پورے کرنے والا ہے؛ ہر عمر کے خواتین و حضرات بالخصوص پاکستانیوں کے “انگریز” بچوں نے بھی اس فلم کو خوب انجوائے کیا۔ اب یہ فلم دیکھ کر کوئی بھی ارسطو بنتے ہوئے تنقید کرسکتا ہے لیکن بہرحال کمزور کہانی کے ساتھ بھی بہترین فلم ہے۔

یہ کتنی حیرت انگیز بات ہے کہ محض ایک فلمی بزنس تجزیہ نگار کی ٹویٹس اور پینشن گوئی کیسے اچھے بھلے پراجیکٹ کا ستیاناس کرسکتی ہے، لیکن اسکا کریڈٹ سوشل میڈیا کو جاتا ہے۔ اگر پرنٹ میڈیا ہوتا تو امیتابھ بچن، عامر خان اور آدتیہ چوپڑا جیسے طاقتور لوگ ملک ریاض بن جاتے اور چھپنے نہ دیتے۔ لیکن اسکے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا کا “سائیڈ ایفیکٹ” یہ ہے کہ اسی طریقے سے کسی بھی ادارے یا حکومت کے پاؤں اکھاڑے یا اسے کمزور کیا جا سکتا ہے۔ یہی صورتحال پاکستان کی ہے۔ پرنٹ اور مین سٹریم میڈیا پر مبینہ پابندیوں پر رونے دھونے والے سوشل میڈیا پر بہت زور لگا رہے ہیں لیکن ظاہر ہے یہاں پر بھاری رقوم تو نہیں ملتیں اس لئے حکومت پر زیادہ غصہ اپنی تنخواؤں میں کمی کا ہے جو اشتہارات کی کمی کے باعث ہے۔

عمران خان کی گورنمنٹ کوئی جادوئی طور پر متاثرکن نہیں لیکن اگر لبرلز اور مذہبی دونوں طبقے اسکے خلاف ہیں تو یہ ایک طرح سے گواہی ہے کہ کچھ تو ٹھیک ہورہا ہے۔ لبرلز کا خیال ہے کہ “ریاست مدینہ” کا ذکر کیوں ہورہا ہے اور مذہبی طبقے، آسیہ بی بی کے کیس کو لیکر باجوہ کو قادیانی اور عمران اور چیف جسٹس کو واجب القتل قرار دے رہے ہیں۔ ایک نکما کینسر اسپیشلسٹ، کینسر کے مریض کا بے توجگی سے علاج کرکے پورے جسم میں کینسر پھیلنے دے اور جب پورے جسم سے گلٹیاں باہر آجائیں تو کسی نئے کینسر اسپیشلسٹ کو مریض ریفر کر دے اور پھر ہر تیس، ساٹھ یا نوے دن کے نئے کینسر اسپیشلسٹ سے پوچھے، “خان صاحب گلٹیاں تو ابھی تک ہیں، انھیں جلا دو، انھیں کاٹ دو” تو جواب تو یہی بنتا ہے، کہ “ میاں آپ اتنے فنکار تھے تو پچھلے تیس سال میں کینسر کو پھیلنے ہی کیوں دیا؟”۔ گلٹیاں تو احتجاج کریں گی لیکن آہستہ آہستہ ہی کٹیں گی، “مریض” کی جان بھی تو بچانی ہے۔

اگلا حملہ ان “گھس بیٹھیوں” کا اداروں پر ہے۔ نیب نے ایک افسر سے تینتیس کروڑ پکڑا، ہوسکتا ہے وہ افسر نیب کا ہی ہو، تو کیا ہوا؛ ہر حساس ادارے میں کرپٹ ہوتے ہیں۔ ایف بی آئی سے سی آئی تک، پچاس ہزار ڈالر سالانہ کمانے والا افسر ایک منٹ میں اربوں کے راز بیچ دیتا ہے۔ ایسے “روگ ایجنٹس” کو پکڑنے سے ادارے مضبوط ہوتے ہیں، ان پر داغ نہیں لگتے لیکن ہمارے ہاں کے “ترن آدرش”کوئی موقع کہاں جانے دیتے ہیں؛ احتساب کے عمل کو ناکام نہیں تو کم از کم کمزور بنانے کا۔ پھر وہی پرانی ڈھال “غریب عوام” کا استعمال ہورہا ہے۔ جو دکانیں قبضے کی ہیں وہ گرائی جارہی ہیں لیکن میڈیا پر رونا دھونا غریبوں کا دکھا رہے ہیں۔ وہ پلازے اور ہاوسنگ سوسائیٹیاں نہیں دکھا رہے جو رینکر بیوروکریٹس اور سیاستدانوں کی ہیں اور نوجوان ضلعی افسران پہلی بار کسی پریشر کے بغیر واگزار کروا رہے ہیں۔ آج سے پہلے صرف ناجائز تجاوزات کے نام پر “غیر قانونی”تھڑے تڑوائے جاتے تھے، پلازے نہیں۔

ملک کو کرپشن سے کھوکھلا اور معاشی طور پر دیوالیہ کرکے نئی حکومت کے حوالے کرنے کے بعد، نئی حکومت کو اسے دوبارہ سنبھالتا دیکھ کر “ٹھگز آف پاکستان” اکھٹے ہورہے ہیں۔ ایک آدمی کی ٹویٹس “ٹھگز آف ہندوستان” کو کھا گئی تو یہاں تو ہزاروں کے ہزاروں ٹویٹس کرنے والے ایک انسان عمران خان کے پیچھے پڑے ہیں۔ اپنی تمام تر قلابازیوں اور نا تجربہ کاریوں کے باوجود عمران پاکستان کو ٹھیک سمت میں لیکر جانے کے لئے کوشاں ہے اور اگر مذہبی طور ہر ماڈریٹ اور لبرلز نے کھل کر ساتھ نہ دیا تو “پین دی سری” کروانے کے ذمہ دار خود ہوں گے۔

کالم نگار: راؤ کامران علی، ایم ڈی
ہر بدھ وار کو کالم لکھا جاتا ہے۔ اگر پسند آئے تو شئیر کریں۔ مزید کالم پڑھنے کے لئے اس پیج Tez Hay Nok e Qalamکو like کریں شُکریہ-

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *