یہ امریکہ میں مقیم ایک ایسے نام نہاد صحافی کی کہانی ہے جس کا نام میرے مطابق “پاتال” ہے کیونکہ اس کے کردار کی گراوٹ پاتال کی گہرائی تک پہنچی ہوئی ہے اور اس سے فرق نہیں پڑتا کہ وہ خود کو “فلک”یا “آفاق” سمجھے؛ اور چونکہ وہ مال دیکھ کر جونک کی طرح چمٹ جاتا ہے اسلئے اسکا آخری نام “جونکی” کہا جا سکتا ہے۔
غالباً دو یا اڑھائی سال قبل، مجھے ایک فون کال موصول ہوئی اور کال کرنے والے نے اپنا نام “پاتال جونکی” بتایا اور اپنی صحافت کے گُن گانے کے بعد چھُوٹتے ہی پوچھا، “سُنا ہے آپکے پاس بڑی دولت ہے”، امریکہ میں تیرہ چودہ سال کے قیام میں پہلی بار کسی نے یہ بات اتنے بے ڈھنگے انداز میں پوچھی، اس سے پہلے لاہور کے سگنل پر بھکاری ایسی تعریف کرتے ہوئے بھیک مانگتے دیکھے تھے۔ فوراً میں جان گیا کہ جسے مدعا تک بیان کرنے کا سلیقہ نہیں وہ کم از کم صحافی نہیں ہوسکتا۔ میں نے اسے بتایا کہ میں وہ “پین مینیجمنٹ ڈاکٹر” نہیں جو آپ سمجھ رہے ہیں، اس نے جواب میں مجھے میری ایک دو انویسٹمنٹس بتا دیں اور میں جان گیا کہ یہ بندہ “ہوم ورک” کرکے آیا ہے اور میں چوکنا ہوگیا۔ ان دنوں میں نے نئے نئے کالم لکھنے شروع کئے تھے تو پاتال سرکار نے میری بے انتہا تعریفیں شروع کردیں اور گاہے بگاہے مجھے فون کرنے کا سلسلہ شروع کردیا یا یوں کہہ لیں کہ جونک کی طرح چمٹ گیا۔ ہر فون میں اپنے مالی حالات کا رونا اور ساتھ میں یہ بات بھی کرنا کہ وہ “خاندانی آدمی” ہے اور میں واحد بندہ ہوں جس سے وہ یہ رونے روتا ہے۔
ایک دن “پاتال جونکی” کوئی سستا نشہ کرکے جذباتی عدم توازن کا شکار تھا؛ اس نے مجھے کال کیا اور کہا کہ میں اسے “اپنا” سے ایڈورٹائزنگ کا بزنس لے کر دوں۔ میں نے کہا “اپنا” کا کوئی اتنا بڑا بزنس نہیں ہے۔ وہ جذباتی انداز میں چلانے لگا کہ حال ہی میں ڈاؤ میڈیکل کالج ایلومینائی کی سالانہ میٹنگ میں جیو کے وقار علی خان نے ڈیڑھ سے دو لاکھ ڈالر کمایا ہے اور اسے بھی یہ کمانا ہے۔ میں نے اسے بتایا کہ ہماری تو چھوٹی سی نشتر ایلو منائی ہے، ڈاؤ سے ہی بات کرو۔ اس گفتگو کے کچھ دنوں بعد ہی “ جونکی” نے ڈاؤ سے تعلق رکھنے والے اپنا کے سابقہ صدر کے ساتھ نیویارک اور ڈاؤ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر کے ساتھ واشنگٹن ڈی سی میں ایک پروگرام شروع کیا، جس میں مہمانوں کو مدعو کیا جاتا اور جونکی صاحب انھیں چمٹ جاتے۔ دونوں میزبانوں نے پروفیشنل اینکرز نہ ہوتے ہوئے بھی اچھا کام کیا لیکن پروڈیوسر کی بد نیتی اور بدعملی کے باعث شو چل نہ سکا اور “پاتال جونکی” میرے پاس پھر آگیا۔ رمضان المبارک کا مہینہ شروع ہونے والا تھا۔ دونوں اینکرز کی “شان”میں تبرہ کرنے کے بعد وہ رونے لگ گیا کہ شو کے باعث وہ مالی طور پر دیوالیہ ہوگیا ہے اور اب اسے مجھ جیسے دوستوں کی مدد کی ضرورت ہے، میں دل ہی دل میں مسکرا دیا کہ بلی تھیلے سے باہر آرہی ہے۔ “جونکی “نے فرمایا کہ پاکستان میں جیو پر ہر فیملی کا رمضان مبارک کی مبارکباد دینے کا ایک اشتہار چلے گا اور ایک ہزار ڈالر فی فیملی ہوگا اور یہ کہ مجھے اپنے دس سے بیس دوستوں سے اشتہار لاکر دینے ہوں گے۔ اس نے بتایا کہ دس اشتہارات ٹیکساس سے طاہر جاوید دیں گے اور نیویارک میں “اپنا”کے دو سابقہ صدور فی کس دس اشتہارات دیں گے۔ میں نے کہا کہ میں کسی دوست سے اشتہار نہیں لیکر دوں گا لیکن اسے اپنے اشتہار کے لئے ایک ہزار ڈالر دے دیا اور آج تک ٹی وی میں نہ تو ہمارا اشتہار چلا اور نہ ہی بے شرم انسان نے پیسے واپس کئے۔ میں نے سوچا چلو اچھا ہے اب مقروض بن کر جان چھوڑ دے گا لیکن “ایک چور اس پر چتر “کے مصداق مزید جُگاڑ کیلئے پیچھے لگا رہا۔ اسی طرح نیویارک کے لوگوں سے فلوریڈا میں ایک شو کرنے کی غرض سے پیسے ہتھیائے۔ متعدد “جُگاڑ”پروگراموں کی ناکامی کے بعد “پاتال جُونکی” نے ارادہ کرلیا کہ سیدھی انگلیوں سے گھی نہیں نکل رہا تو شریف ڈاکٹروں کو ڈرا کر، بلیک میل کرکے مال ہتھیایا جائے۔واضح رہے کہ امریکی میں ننانوے فیصد پاکستانی صحافی اعلیٰ کردار کے مالک ہیں؛ نیویارک کے فرخ،واشنگٹن کے خرم شہزاد، عاصم صدیقی، ثاقب، جہانزیب، موویز صدیقی، واجد، سے لیکر ٹیکساس کے خانزادہ، جیلانی، زاہد رانا، غزالہ، ندیم اختربہترین صحافت کی زندہ مثالیں ہیں۔
“اپنا” میں کریڈیبیلیٹی کے حامل لوگ، فراڈیوں کا من بھاتا شکار ہوتے ہیں، اسلئے میں کبھی “پاتال” کے ساتھ کھڑا نہیں ہوا اور نہ کبھی تصویر بنوائی کہ وہ اسے manipulate نہ کرے۔ سال رواں اٹھارہ جولائی کو لکھے گئے کالم “یاری کی سواری” کے کمنٹس میں اس نے میرے کالم کے کاندھے پر بندوق رکھ کر کچھ ڈاکٹروں کو ذلیل کرنے کی کوشش کی تو میں نے اسے کمنٹس میں ہی سختی سے جھاڑ دیا کہ وہ ہماری “اپنا” فیملی سے دور رہے، یہ ہمارا آپس کا معاملہ ہے۔ اسکے بعد سے اس نے “اپنا” کے ایک دو ڈاکٹروں (جن کا خود کا ریکارڈ خراب ہے)، سے سُن گن لیکر “مصالحہ اسٹوری” بنا کر “وٹس ایپ” کے ذریعے شریف لوگوں کو پریشان کرنا شروع کردیا ہے۔ “اپنا” کی سوشل ویلفیر کی روح رواں ہماری ایک بڑی بہن ڈاکٹر کو ٹیکسٹ کرکے پریشان کرتا رہا کہ “مجھے اندر کی باتیں بتاؤ”۔ انھوں نے جونکی کو بلاک کیا تو کل ایک انجان نمبر سے انھیں کال کرکے دو باتیں کیں
۱- اپنا کی پریذیڈنٹ الیکٹ ڈاکٹر ناہید عثمانی کی کچھ کمزوریاں یا خامیاں بتاؤ تاکہ اس پر “اسٹوری” بنا کر وٹس ایپ کرسکوں، (گویا بلیک میل کرسکے)۔
۲- مبینہ طور پر “اپنا” کے کسی ڈاکٹر نے کسی لڑکی کو ہراساں کیا ہے۔ لڑکی کاروائی نہیں کرنا چاہ رہی لیکن میں (جونکی) اسٹوری بنانا چاہتا ہوں- (تاکہ چار پیسے مل سکیں)۔
خون کا رنگ ایک ہوتا ہے لیکن خصوصیات نہیں؛ دینے والے ہاتھ کی اور بات ہوتی ہے جبکہ دھوکے بازی سے مانگنے والے ہاتھ کی اور۔ ایک بڑے باپ کی عظیم بیٹی جو دل کھول کر فلاح و بہبود میں خرچ کرتی ہو، نے ایک بلیک میلر بھکاری کو جھاڑ کر رکھ دیا کہ اسکی ہمت کیسی ہوئی ہماری ہی اپنی صدر خاتون کے بارے میں ایسی بات کرے۔
دوسری بات یہ ہے اگر کسی ڈاکٹر نے یا کسی صحافی نے ہرا سگی کی ہے تو یہ کسی 501c3 آرگنائزیشن کا کیس تو ہے نہیں، یہ تو سراسر کرمنل کیس ہے، پولیس میں رپورٹ درج کروا کر مجرم کو اندر کرواؤ، یہ امریکہ ہے جہاں نہ مجرم بچتا ہے نہ جھوٹا الزام لگانے والا۔اگر “پاتال جُونکی” کی اپنی بیٹی کو کوئی ہراساں کرے تو کیا وہ پولیس میں جائے گا یا ہراساں کرنے والے کو بلیک میل کرکے پانچ سو ڈالر پکڑ کر گلے میں سرخ رومال ڈال کر پان چباتا ہوا گھر کے باہر “نئے شکار” کی تلاش میں بیٹھ جائے گا؟ “پاتال جُونکی” کا کہنا ہے کہ “ڈی فیمیشن کیس”(کسی کی جھوٹی بدنامی پر قانونی کاروائی کو ڈی فیمیشن کیس کہتے ہیں) ہلکا ہوتا ہے اسلئے وہ کسی کے متعلق بھی لغو لکھ سکتا ہے یا افواہ پھیلا سکتا ہے؛ ہوسکتا ہے ایسا ہی ہو لیکن ہر کیس میں وکیلوں کی فیس تو ہوتی ہے۔ ایک خوشحال ڈاکٹر تو مجبوراً ہی سہی مگر کیس کرکے فیس آرام سے دے دے گا لیکن ٹکا ٹکا مانگنے والے بلیک میلر بھکاری کے تو گردے بک جائیں گے۔
“پاتال جونکی” کا خیال ہے کہ سب ڈاکٹر پڑھاکُو، شریف اور آسان شکار ہوتے ہیں اور یہ سچ ہے؛ لیکن بزدل نہیں ہوتے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب وہ اپنی اور اپنوں کی عزت کے لئے اکھٹے ہوتے ہیں تو طاقت کے ایوانوں سے لیکر کیپیٹل ہل تک کو ہلا کر رکھ دیتے ہیں۔ مسٹر “جُونکی” میں تمھیں چیلنج کرتا ہوں؛ ڈاکٹر ناہید عثمانی تو کیا،کسی بھی صدر حتی کہ کسی عام “اپنا” ممبر کے خلاف بھی لغو اور جھوٹ لکھنے کی یا بلیک میل کرنے کی جسارت کرکے دیکھو اور پھر میں تمھیں دکھاؤں گا کہ “اپنا فیملی” کیسے تمھارے جیسے غلیظ کیڑے کے خلاف اکھٹی ہوتی ہے۔ویسے تو colonoscopy کی مدد سے بڑی آنت میں سے ڈھیٹ کیڑوں کو نکالا جاتا تھا؛ لیکن تمھارا بلیک میلنگ کا کیڑا اگر کُلبلایا تو دیکھنا کیسے اسے ہاتھ ڈال کر نکالتے ہیں یہ ڈاکٹر؛ یہ وعدہ ہے تم سے میرا اور ان سب شریف ڈاکٹروں کا جنھیں تم کمزور سمجھتے ہو۔
نوٹ!!! اگر کسی بھی ڈاکٹر کو “پاتال جونکی” یا کسی بھی بلیک میلر سے ماضی میں شکایت ہوئی ہو یا مستقبل میں ہو، مجھے فیس بک پر ٹیکسٹ کریں۔“اپنا” کے ہر ڈاکٹر بالخصوص اور ہر پاکستانی بالعموم تک یہ پیغام پہنچائیں۔
کالم نگار: راؤ کامران علی، ایم ڈی
ہر بدھ وار کو کالم لکھا جاتا ہے۔ اگر پسند آئے تو شئیر کریں۔ مزید کالم پڑھنے کے لئے اس پیج Tez Hay Nok e Qalam کو like کریں شُکریہ