پاکستان میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی

فرشتوں جیسی زینب کے ساتھ درندگی کے بعد پاکستان میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کا گلاس بھر کر چھلک گیا ہے۔ آنے والے دنوں میں یہ درندہ تو انشاالّلہ کیفر کردار کو پہنچے گا ہی لیکن اس سے آگاہی کا ایک نیا باب کھلے کا اور معاشرے کے نام نہاد نیک نامی کے پیمانے پر پورا اترنے کے لیے جو بدبودار کہانیاں صندوق میں بند کر دی جاتی ہیں وہ باہر نکلیں گی۔ ایک بار تو ناک پر ہاتھ رکھنا پڑے گا لیکن پھر آہستہ آہستہ سانس لینا آسان ہوجائے گا۔ بدقسمتی سے جو واقعات سامنے آتے ہیں وہ ریپ اور قتل کے ہوتے ہیں۔ محض ریپ کے بہت سے واقعات چھپا لیے جاتے ہیں اور ان سب سے زیادہ عمومی مسئلہ ہے جنسی دست درازی۔

پاکستان میں بچیوں سے بھی زیادہ خطرے میں بچوں کی عزت ہے کیونکہ بچوں تک نسبتاً رسائی زیادہ آسان ہے۔ گو کہ کسی بھی رنگ یا شکل کا بچہ اس سے محفوظ نہیں ہے لیکن اگر بچہ خوبصورت ہے اور اسکا رنگ گورا ہے تو یہ مومنینِ مملکت خداداد کی مرغوب “غذا” ہے۔ ننھے بچے کو ضرورت سے زیادہ “پیار” کرنے والے عزیزوں سے شروع ہونے والا سلسلہ مولوی صاحب کی گود تک جاتا ہے جس میں وہ لاڈلے کو شاباش دینے کے لیے یا “زیادہ توجہ” سے پڑھانے کے لیے بٹھاتے ہیں۔ یہی معاملہ اسکول تک کچھ یوں جاتا ہے کہ کرسی پر بیٹھے ٹیچر کو تھپتھپانے کیلئے بچے کا سر دور پڑتا ہے تو کرسی کے پاس کھڑے بچے کے جسم کا “جو حصہ” پہنچ میں ہوتا ہے وہی تھپتھپا دیا جاتا ہے۔ والدین کے دوست جب بچے کو پیار کرتے ہیں یا سر پر ہاتھ پھیرتے ہیں تو یہ دستِ شفقت بعض اوقات پھسلتا ہوا، کہیں دوووووور تک چلا جاتا ہے۔ یقیناً ان ہوس پرستوں کی تعداد بہت کم ہے لیکن زندگیاں تباہ کرنے کے لیے کافی ہے۔ اور پھر آتے ہیں اسکول اور کالج! ساتویں آٹھویں جماعت میں جب بارہ تیرہ سالہ بچے جاتے ہیں تو بار بار فیل ہونے والے سترہ اٹھارہ سالہ بدمعاش انکے شکار کے لیے بیٹھے ہوتے ہیں۔ کالج میں تو باقاعدہ حرامزدگی کے اسپیشلسٹ موجود ہوتے ہیں جو کہ “بچہ اسپیشلسٹ” کہلاتے ہیں۔ ان “جوانوں” کے اپنے گھروں کے حالات کچھ ایسے ہوتے ہیں کہ امی جان لوگوں کے گھروں سے آٹا مانگ رہی ہوتی ہیں اور ابا جان قرض خواہوں کے ڈر سے گھر سے باہر نہیں نکلتے لیکن کام کاج سے بے نیاز انکی ساری جوانی ایسے کاموں کی نظر ہوجاتی ہے۔ شریف اور پڑھنے والے بچوں پر انکے “داؤ پیچ” کچھ اسطرح چلتے ہیں کہ؛ پہلے بہلا پھسلا کر دوستی کی کوشش، ناکامی پر دھمکی، پھر بھی دال نہ گلنے پر ان بدمعاشوں کے گروپ میں سے کوئی ایک بچے کے ساتھ مارپیٹ کرتا ہے اور دوسرا بچے کو بچا کر “گُڈ کاپ” بنتا ہے اور یہ سب نہ چلے تو بہانے سے نشہ آور مشروب پلا کر یا زبردستی اٹھا کر ریپ کیا جاتا ہے۔ کبھی پاکستان میں “ستیہ میو جیتے” جیسا شو چلے تو ایسی آپ بیتیاں سُن کر لوگوں کے دل پھٹ جائیں۔

بچوں سے زیادتی کے بعد اہم نکتہ ہے مجرم کی سزا اور معاشرے میں دوبارہ واپسی۔ “ایڈم والش” نامی سولہ سالہ بچے کو 1981میں ایک ایسے ہی انسان نما جانور “اوٹس ٹول” نے فلوریڈا میں اغوا کرکے قتل کردیا تھا۔ ایسے جانوروں سے مزید بچوں کو محفوظ کرنے کے لیے “سورنا” نام کا بل کانگریس نے پاس کیا جو کہ The Sex Offender Registration and Notification Act کا مخفف ہے۔ اس کی رو سے بچوں سے زیادتی کا مجرم جس بھی محلے میں جائے گا وہاں پورے محلے کو اس کا ماضی اور اوقات بتانی پڑے گی۔ وہ مجرم بچوں کے اسکول سے ایک ہزار فٹ دور سے گزرے گا۔ ہمارے ہاں کیا ہوتا ہے؟ ایسے جانور دوبارہ گلیوں میں پھرتے ہیں۔ ہمیں بخوبی پتا ہوتا ہے کہ اس بچوں کے شکاری کا کردار کیا ہے۔لیکن سوچتے ہیں کہ اس نے ہمارے بچے کے ساتھ تو بُرا نہیں کیا۔ حالانکہ یقین جانیے اس جانور نے ہمارے بچوں کو بھی اسی نظر سے دیکھا ہوگا بس موقع نہیں ملا ہوگا یا ہمارے بچوں کے نصیب (ابھی تک) اچھے ہونگے۔ ہر مخلوق کے ہیرو اسی مخلوق میں سے ہوتے ہیں مثلاً ایک کتے کا ہیرو امیتابھ بچن نہیں ہوگا بلکہ اسی کا کوئی جاننے والا کتا ہوگا جو بھونکنے اور کاٹنے میں مشہور ہو۔ زینب کا قاتل، اس جیسے کئی سفاک نفسیاتی مریضوں کا ہیرو بن گیا ہے جو پورے پاکستان کی پولیس اور سیکیورٹی ایجنسیوں کے سامنے ناقابلِ تسخیر ثابت ہورہا ہے۔ والدین کو ایسے “مریدین” سے چوکنا رہنے کی اشد ضرورت ہے جو اپنے” ہیرو” کی راہ پر آجکل زیادہ چل رہے ہیں۔

اس معاشرے کی بقا “بیک ٹو فیوچر” میں ہے؛ جب انسانوں کے کردار کی عزت ہوتی تھی ناکہ دولت یا چمک دمک کی؛ جب پڑوسیوں کے بچے بھی اپنے بچوں کی طرح عزیز ہوتے تھے۔ جب بڑے بوڑھے، اجنبی لوگوں کے ساتھ محلے کے بچے جاتے دیکھ کر روک کر سوال پوچھتے تھے۔ جب کوئی بدمعاش لڑکا اسکول کالج میں کسی چھوٹے کو ستاتا تھا تو کوئی اعلیٰ کردار کا بہادر لڑکا بچاتا بھی تھا۔وقت آگیا ہے کہ سول سوسائٹی ایسے سفاک لوگوں کا اچھوت کی طرح بائیکاٹ کرے اور جو بائیکاٹ نہ کرے اسے بھی اس جیسا سمجھا جائے۔ یہ دوسروں کے بچوں کے خیال کا رویہ “نیوندرے” کی طرح واپس آئے گا جس میں دوسرے بھی آپکے اپنے بچوں کی عزت اور جان کے محافظ ہونگے۔ حکومت کو چاہیے کہ جس طرح “امبر الرٹ” امریکہ کی طرح پاکستان میں شروع کرکے اسکا نام “زینب الرٹ” رکھا جا رہا ہے اسی طرح “سورنا ایکٹ” کی طرح “زینب ایکٹ” ہو جس میں ہر شہر میں متعلقہ تھانے سے ایس ایم ایس پورے شہر کو جائے کہ ایک بچوں کا شکاری درندہ اس شہر میں آگیا ہے، اس پر آنکھ رکھو،محتاط رہو اور بندوقیں صاف کرلو تاکہ اسے پتا چلے کہ اب کسی بچے پر آنکھ اٹھائی تو دوبارہ وہ جیل میں نہیں، سیدھاجہنم جائے گا۔

کالم نگار: راؤ کامران علی، ایم ڈی
ہر بدھ وار کو کالم لکھا جاتا ہے۔ اگر پسند آئے تو شئیر کریں۔ مزید کالم پڑھنے کے لئے اس پیج Tez Hay Nok e Qalam کو like کریں شُکریہ

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *