ڈاکٹر رضوی، میرے سینئر ڈاکٹر ہیں اور میں ان کے ساتھ کام کرچکا ہوں۔ ڈاکٹر رضوی امریکہ میں پیدا ہوئے اور پلے بڑھے لیکن ایم بی بی ایس کرنے پاکستان گئے اسلئے وہ مشرق اور مغرب کی خوبیوں کا خوبصورت امتزاج ہیں؛ بے حد کامیاب بزنس مین، کھلے دماغ کے ہوشیار اور کایاں فزیشن ہیں۔ ایک مرتبہ وہ نیویارک میں مجھ سے ملنے آئے تو انھوں نے کہا کہ چاول خریدنے ہیں۔ میں انھیں اس دیسی اسٹور پر لے گیا جہاں سے ہم خریداری کرتے تھے۔ انھوں نے چاولوں کا تھیلا دیکھا تو اس پر “ٹیمپل” لکھا تھا، انھوں نے کہا، “ میں یہ چاول خرید کر انڈین انڈسٹری کو فائدہ نہیں دینا چاہتا”۔ اتنے لبرل اور تقریباً “انگریز” ڈاکٹر کی زبان سے یہ بات بڑی حیرت ناک لگی، بہرحال میں ان سے فرینک ہونے کے باوجود انکی عزت کرتا تھا (اور کرتا ہوں) اسلئے بحث نہیں کی۔ چار پانچ اسٹور کے بعد پاکستانی چاول مل گئے۔ ڈاکٹر رضوی نے بتایا کہ انکے دادا پاکستان کے بڑے انٹیلی جنس آفیسر تھے، بے حد محب وطن تھے اور انھوں نے سکھایا تھا کہ کبھی انڈین مصنوعات مت خریدو، اس سے وہ ہتھیار خریدیں گے۔ میرے لئے یہ بڑا دلچسپی کا معاملہ تھا۔ اس دن میں نے انٹیلی جنس آفیسر رضوی کو گوگل کیا تو ایک آفیسر کا نام سامنے آیا جو کہ مشرقی اور مغربی پاکستان کے متحدہ انٹیلی جنس چیف تھے- مزید معلومات کے مطابق، متحدہ پاکستان کی سول انٹیلی جنس، پاکستان کی تقسیم کی کسی حد تک ذمہ دار تھی کیونکہ اس نے بنگال میں علیحدگی کے ابلتے ہوئے طوفان کی وقت پر اطلاعات فراہم نہیں کیں۔ یہاں سے میں بنگلہ دیش کی علیحدگی کے بارے میں آرٹیکلز پڑھتا دور تک نکل گیا اور کئی نئی باتوں کا پتا چلا۔
مزے کی بات ہے کہ آج تک تمام لکھاری اور کالم نگار ہر سال سولہ دسمبر کو فوجی افسران بالخصوص جنرل نیازی پر لعنت بھیجنے کا سلسلہ شروع کرتے ہیں۔ کچھ یحییٰ خان کے شفاف انتخابات کی تعریف کرتے کرتے، بنگلہ دیش کے حوالے سے اسے پر بھی لعنت ملامت کرتے ہیں۔ سیاسی شخصیات بھٹو کے “ادھر ہم ادھر تم” کی بینڈ بجاتے ہیں یا پھر وہی شیخ مجیب “غدار” کی باتیں۔ لیکن اس حوالے سے “میسنی” بنی سول بیوروکریسی اور ٹیکنو کریسی کا یا تو ذکر ہوتا ہی نہیں یا سرسری سا۔
سول بیوروکریسی نے سب سے پہلے بنگال کے “بوجھ” کا ایشو اٹھایا تھا۔ وزارت پیداوار کے مطابق سوائے پٹ سن کے بنگال میں اور کوئی کاشت نہیں، گندم تک مغربی پاکستان سے جاتی تھی۔ سیلابوں نے مشرقی پاکستان کی مت ماری ہوئی تھی خصوصاً 1970 میں آئے “بھولا سائکلون”نامی طوفان نے پانچ لاکھ جانیں لیں اور تیس فیصد بنگلہ دیش کو مفلوج کردیا۔ مغربی پاکستان کے بابوؤں کو مشرقی پاکستان بوجھ لگنے لگ گیا اور عملی طور پر کافی حد تک ایسا تھا بھی لیکن بھائی بوجھ نہیں ہوتے؛ ایک ہاتھ پر فالج ہوجائے تو دوسرا ہاتھ اسے بوجھ نہیں سمجھتا۔ بنگالی انگریزی تو کیا اردو سیکھنے پر بھی آمادہ نہیں تھے جس کے باعث ناخواندگی زیادہ تھی اور لگتا نہیں تھا کہ اپنی تعلیمی مہارت سے وہ ملکی معیشت میں کوئی اہم کردار ادا کرسکتے تھے۔ مزید برآں، جیسے یار لوگوں کو عمران خان کے تجویز کردہ دیسی انڈوں کی “حدت” سے آبادی بڑھنے کا اندیشہ لاحق ہورہا ہے؛ تو مچھلی کی “تاثیر” آپ خود سوچ لیں۔ ان دنوں ہماری سائیڈ کے سرکاری بابو صبح شام مچھلی کھاتے بنگالیوں کی ایک ہی “مصروفیت” اور تیزی سے بڑھتی آبادی کامضحکہ اڑاتے انکے زوال ایسی ہی پیشنگوئیاں کرتے تھے جیسے شیخ رشید ہر دوسرے مہینے نواز شریف کے جانے کی کرتے تھے۔ وزارت خزانہ اور وزارت خارجہ کے سینئیر بیوروکریٹ ایوب خان کے زمانے سے لیکر بھٹو تک کو “بنگالی بوجھ” سے روشناس کرتے رہے تھے۔
جہاں تک فوجی اور سیاسی قیادت کا کردار ہے، انکی غلطیوں کا تو شمار ہی نہیں لیکن سب سے بڑی غلطی انا اور احساس برتری تھی۔ کبھی بھی مسئلہ برابر کی سطح پر حل کرنے کی کوشش ہی نہیں کی گئی ایسے ہی جیسے ایک چوہدری دوسرے چوہدری سے تو بات چیت یا ڈائیلاگ سے مسئلہ حل کرلے گا لیکن کبھی کسی کمی کمین سے نہیں کرے گا۔ یہی سلوک بنگالیوں کے ساتھ کیا گیا ورنہ جنرل اعظم مسئلہ حل کرسکتے تھے کیونکہ وہ واحد جنرل تھے جنھوں نے بنگالیوں کو برابر کی عزت دی اور یہ انکا حق تھا اور رہے گا۔ لیکن “ٹائیگر” نیازی کو دھاڑنے کے لئے بھیجا گیا کہ منکسر المزاج، پانچ پانچ فٹ کے بنگالیوں کو ڈرانا کیا مشکل ہوگا اور پھر جنرل اروڑا کے پہلو میں بیٹھے “ٹائیگر” کی وہ “دہاڑ” آج تیسری نسل یو ٹیوب پر دیکھ رہی ہے۔ اسکے ساتھ ساتھ یہ بھی سچ ہے کہ ہتھیار ڈالنا نیازی کا نہیں اوپر کا فیصلہ تھا اور میرے خیال میں یہ بہتر فیصلہ تھا؛ خالی ہاتھ نوے ہزار فوجی (کچھ آرٹکلز جن میں شرمیلا بوس کی کتاب بھی شامل ہے، تعداد پچیس سے پچاس ہزار بتاتے ہیں) لڑوانا، تاریخ کی کتابوں میں اچھا لگتا ہے؛ “بے تیغ مومنوں” کو لڑا کر، نوے ہزار عورتوں کو بیوہ بنانا اور اس سے دو تین گناہ بچوں کو یتیم بنانا کوئی ہیروپن نہیں بلکہ پاگل پن ہوتا۔
شرمیلا بوس کے مطابق پاکستانی فوجیوں نے قتل و غارت اورعصمت دری نہیں کی جبکہ زیادہ تر آرٹیکلز کے مطابق کی گئی تاکہ خوفزدہ کرکے بغاوت کچلی جائے۔ بدقسمتی سے مکتی باہنی کو انڈر ایسٹمیٹ کیا گیا۔ زیادہ تر ڈیٹا ڈھائی سو (منیر بلوچ کی ریسرچ) سے لیکر ڈھائی تین ہزار ریپ (مغربی میڈیا)اور دس سے بیس ہزار بنگالیوں کے قتل کی تصدیق کرتا ہے جبکہ فوج کو بدنام کرنے کے لئے ستر ہزار ریپ اور لاکھوں کی تعداد میں قتل و غارت کی افواہیں اڑائی گئیں۔ ہربرٹ بوڈمین کی 1998 میں چھپی کتاب کے مطابق جماعت اسلامی نے فتویٰ جاری کیا تھا کہ باغی بنگالیوں کی بیویاں مال غنیمت میں ملی لونڈیاں ہیں اور انکے ساتھ کچھ بھی کیا جاسکتا ہے۔لیکن اسکے دو لاکھ ریپ کے دعوے سراسر جھوٹ معلوم ہوتے ہیں۔
پاکستان کی تقسیم کا باعث بننے والی غلطیاں سکھاتی ہیں کہ ملک کا ہر باشندہ ایک جیسی عزت اور اہمیت کا حق دار ہے۔ نہ تو کسی کو “وہاں سے راکٹ آئیں گے کہ پتا نہیں چلے گا”کی دھمکی دی جاسکتی ہے اور نہ ہی کسی کو دبایا جاسکتا ہے۔ جنھیں منتخب حکومت ملی وہ عوام کو عزت اور اہمیت دیں تو دو وقت کی جگہ ایک وقت کی بھی روٹی کھا کر زندہ اور خوش رہ سکتے ہیں اور کبھی ملک توڑنے کی بات نہیں کریں گے۔
کالم نگار: راؤ کامران علی، ایم ڈی
ہر بدھ وار کو کالم لکھا جاتا ہے۔ اگر پسند آئے تو شئیر کریں۔ مزید کالم پڑھنے کے لئے اس پیج Tez Hay Nok e Qalam کو like کریں شُکریہ-