پراپرٹی کے کاروبار کا بحران

پراپرٹی یعنی جائیداد بالخصوص پلاٹ کے ساتھ بحیثیت قوم ہماری چاہت کا سلسلہ بہت پرانا ہے۔ انگریزوں نے اس رغبت کو محسوس کرتے ہوئے، سرکش راجاؤں سے زمینیں اور جاگیریں چھنیتے ہوئے، ایسے لوگوں میں بانیٹیں جو انکے لئے اپنی قوم کی پیٹھ میں چھرا گھونپ سکتے تھے؛ جاگیر کے ساتھ “خان بہادر” کا لقب اور ضرورت پڑنے پر مذہبی لاحقے بھی ساتھ لگا دئیے گئے تاکہ عوام کا زیادہ حصہ طاقت سے کنٹرول میں رہے باقی ماندہ “پیرومرشد” کے وسیلے سے روز آخرت کی شفاعت کے ڈر سے۔ تقسیم کے بعد یہ “کمپلیکس” اپنے ساتھ ہمارے حصے میں آیا۔ لوگ بچھڑے رشتہ داروں سے زیادہ بچھڑے مربعوں اور حویلیوں کا ذکر کرتے۔ آج بھی انکی تیسری نسلوں سے “دادا جی” کی لینڈ لارڈی کے قصے سننے کو ملتے ہیں۔ ستر اور اسّی کی دھائی میں بیرون ملک مزدوری کی مانگ بڑھی تو غریبوں میں پکے مکان اور مڈل کلاس میں “کوٹھی” کی خواہش جاگی۔ کوٹھی کے لفظی معنی باغ کے بیچو بیچ ایک منزلہ مکان کے ہیں جو کہ رفتہ رفتہ دو منزلہ میں بھی تبدیل ہوگیا۔ پوری دنیا میں سڑک کے پاس رہائشی پلاٹ نہایت ناپسندیدہ اور سستا ہوتا ہے تاکہ رواں ٹریفک، مکینوں کے سکون میں خلل نہ ڈالے۔ لیکن پاک سر زمین میں برلب سڑک پلاٹ مہنگا ہوتا ہے اور کونے والا ہو تو کیا ہی بات ،کہ دو طرفہ ٹریفک واہ واہ کرے۔

زمین اور پلاٹ کی یہ طلب اور یہ شدت، حکومت سے پہلے پراپرٹی ڈیلرز اور فراڈئیے سمجھ گئے۔ ہم حکمرانوں کو “امیر المومنین” بناتے رہے اور امیر المومنین کی سلطنت میں باقاعدہ رجسٹری کا کوئی نظام نہیں تھا۔ پٹواری لفظ ویسے ہی بدنام نہیں ہوا؛ پلاٹ کے مالک کا حتمی فیصلہ وہی کرتا۔ “بارلے مُلک” کے لوگ مزدوری کرکے ایک ہی پلاٹ دس بار خریدتے اور پھر بھی گارنٹی نہیں تھی کہ مل جائے گا۔ اپنے ہی خریدے پلاٹ کی گارنٹی دینے کے بدلے بھاری رقم نے انسپکٹر نوید سعید، عابد باکسر، ٹیپو ٹرکاں والے جیسے گوہر نایاب کے لئے خلا پیدا گیا اور اسّی کی دہائی کےسیاسی غنڈے شہباز شریف کے پالتو طلبا بھی پلاٹ کا قبضہ لیکر دیتے اور پیسے لیتے اور خود کو سنجے دت سمجھتے۔ بعد میں شہباز شریف نے یہ سب اسٹوڈنٹ “چوہدری” پولیس مقابلے میں مروا دئیے۔

اس نفسانفسی اور بے یقینی کے بحران سے جنم ہوتا ہے ڈی ایچ اے کا اور بحریہ ٹاؤن کا۔ عمومی (اور صحیح)تاثر ہے کہ فوج کے ساتھ پنگا کوئی لے نہیں سکتا اس لئے ڈی ایچ اے میں پلاٹ لیکر قبضہ مافیا سے جان چھوٹ گئی، تاہم ڈی ایچ اے محض امرا کو پلاٹ بیچنا چاہتا تھا اس لئے پوری رقم ایڈوانس دیکر پلاٹ خریدنا پڑتا۔ پھر بھی مانگ اتنی بڑھ گئی کہ ترقیاتی کاموں کے لئے مشینری کم پڑگئی اور پلاٹ کا قبضہ دیر سے ملنے لگا۔ سن 2005 میں ملنی والی چالیس لاکھ روپے کی فیز سیون کی فائل کا حال یہ ہے کہ آج بھی زیادہ تر لوگ اس فیز میں گھر نہیں بنا سکتے۔ یاد رہے کہ ان دنوں ڈالر ساٹھ روپے کا تھا اور ترقیاتی خرچہ ہر خریدار نے جیب دیا۔ آج کے ڈالر کے حساب سے وہ پلاٹ پیسے بھی پورے نہیں کرتا۔ان حالات نے شاطر اور ذہین ریاض ملک کو موقع دیا اور اس نے بحریہ ٹاؤن کے نام پر پراپرٹی کا “ایمازون” بنا دیا؛ جہاں چپڑاسی بھی پلاٹ لے سکتا تھا اور زرداری بھی۔ قسطوں میں ادائیگی اور قبضہ گروپ سے پاک بحریہ ٹاؤن پوری دنیا میں مقیم پاکستانیوں کے لئے ہاٹ کیک بن گیا۔ مانگ بڑھی تو حرص بڑھی، طاقتوروں کو ساتھ ملا کر ناجائز زمینوں پر بحریہ ٹاون کے سیکٹر بنے۔ کوئی جج رکاوٹ بنا تو اسکے بیٹے کو عیاشی کروا دی، ریٹائرڈ فوجی افسروں کو کروڑوں کے پیکیج دے دئیے؛ قانون اور عدلیہ آنکھوں پر پٹی باندھ کر چُپ رہے۔ دونوں منصوبے لالچ کی زد میں آگئے۔ چند فوجی افسران کیک کا ٹکڑا کھانے کی بجائے پورا کیک نگلنا چاہتے تھے۔ کیانی کے بھائی آگے آئے اور بریگیڈیئر بٹ صاحب نے پچیس ہزار کنال کا فراڈ کرکے ڈی ایچ اے سٹی کے نام پر لوٹا۔ ملک ریاض سیکٹر ایف لاہور سے لیکر بحریہ انکلیو اور بحریہ ٹاؤن کراچی تک میں فراڈ کرتا رہا اور طاقت کے ایوان اسکا منہ تکتے رہے۔ جب لوگوں نے اپنی بیسیوں سال کی جمع پونجی لگا دی تو یہ ایوان ہڑبڑا کر جاگ اٹھے اور اب ان زمینوں کو واگزار کروایا جارہا ہے، بلڈوزروں کی ویڈیوز اپ لوڈ ہورہی ہیں- یقیناً یہ اچھا عمل ہے لیکن چند سوالات اہم ہیں۔

۱-ابھی لاہور اور اسلام آباد میں جو عمارات اور گھر ڈھائے گئے، اسکے متاثرین کو معاوضہ کون دے گا؟

۲- جن ایل ڈی اے یا سی ڈی اے کے سربراہان نے اس معاملے کو وقت پر نہیں روکا انکے خلاف کیا کاروائی کی جارہی ہے؟

۳-بیرون ملک کے محبت کشوں سے کبھی ڈیم فنڈ کبھی ٹرین کے پرزے مانگے جارہے ہیں انکی حق حلال کی کمائی سے بنائی جائیداد کا کون ضامن ہے؟

۴-ملک ریاض ایک سانپ تھا جسے فوجی اور سول افسران، بیوروکریسی ، سیاستدانوں اور صحافیوں نے اژدھا بنا دیا۔ اسکا سر کچلنے سے پہلے کیا اسکا پیٹ چاک کرکے نگلے ہوئے اثاثے واپس نہیں لئے جائیں گے؟

۵- اگر بحریہ ٹاؤن کل دیوالیہ (بینک رپسی) فائل کردیتا ہے تو قانونی طور پر ملک ریاض سے متاثرین کے پیسے واپس کیسے لئے جائیں گے؟

۶- کیا نیب ایس ویب سائٹ نہیں لانچ کرسکتا جس میں مشتبہ یا غیر قانونی پراپرٹی کی تفصیلات موجود ہوں اور جو پراپرٹی کلین ہو اس کی گارنٹی دے؟

۷۔ ابھی نیب نے گوادر کی ستر سے زائد ہاؤسنگ سوسائٹیاں جعلی قرار دی ہیں، پہلے کیا سو رہا تھا؟

عمران خان کی حکومت کو کرپشن کے خلاف کاروائی کی مبارکباد لیکن اس کاروائی سے عام انسان کو “کولیٹرل ڈیمیج” نہیں ہونا چاہیے۔ اگر بحریہ ٹاؤن میں عام انویسٹرز کا نقصان ہوا تو پاکستان میں بیرون ملک سے پیسے آنے بند ہو جائیں گے۔ کاروائی ملک ریاض کے خلاف کریں بحریہ ٹاؤن کو مت ڈبوئیں اور اس میں فرق پہچانیں۔

کالم نگار: راؤ کامران علی، ایم ڈی
ہر بدھ وار کو کالم لکھا جاتا ہے۔ اگر پسند آئے تو شئیر کریں۔ مزید کالم پڑھنے کے لئے اس پیج Tez Hay Nok e Qalam کو like کریں شُکریہ-

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *