ڈاکٹر بننا ایک انتہائی “نان رومینٹک” عمل ہے۔ میڈیکل کالج میں اگر کچھ جوڑے بن بھی جائیں اور بظاہر کینٹین پر گپ شپ کرتے نظر آئیں اور ڈیڑھ دو ہزار لڑکے ان سے سڑتے نظر آئیں تو آپ اس جوڑے کی قریب سے “رومینٹک گفتگو” سنیں اور وہ کچھ ایسی ہوگی؛
“شبنم! اگر میں ڈیٹین ہوکر پچھلی کلاس میں رہ گیا تو کیا تم پھر بھی مجھ سے پیار کرو گی” ، شبنم، “ہائے میں تو ہاسٹل میں یہ اچانک فزیو ٹیسٹ لگنے پر روئے جارہی تھی، سوچا تمھارے سامنے روؤں”۔ یہ ہوتی ہے جی ڈاکٹر کی ڈیٹنگ۔ گزشتہ پندرہ سالوں سے دیکھ رہا ہوں اور اس سے پہلے اپنے سینیرز کے بارے میں بھی سُناہے کہ اچھے خاصے خوبرو ڈاکٹر امریکہ میں آتے ہیں اور اسپیشلائزیشن میں داخل ہوتے ہیں تو وہ یہاں بھی ”ان ڈیمانڈ” ہو جاتے ہیں۔ پچاس ساٹھ ہزار ڈالر سالانہ تنخواہ شروع میں ہی اور تین سال کے بعد مزید آٹھ دس گُناہ بڑھ جاتی ہے؛ گوریاں آگے پیچھے ہوتی ہیں؛ کیونکہ پیسہ بھی اور پروفیشن کی کشش بھی۔ اب آپ سوچیں کہ یہ پچیس تیس سالہ“ترسے ہوئے” (desperate) ڈاکٹر کھلی دعوتِ کے بعد بھی کسی گوری سے شادی نہیں کرتے؛ وجہ صاف ظاہر ہے کہ عقل، عشق سے آگے کا سوچتی ہے۔ گوری کو کلمہ پڑھا کر بھی کتنا بدل دیں گے؟ کل کو بچے ہوں گے تو وہ زندگی امی جان کے مطابق گزاریں گے یا ابا جان کے مطابق؛ بیٹے کی گرل فرینڈ کو تو ہم “مُنڈوں کھُنڈوں کا کھیل” کہہ کر دل کو تسلی دے دیتے ہیں، بیٹی کے (بدلتے) بوائے فرینڈ کو کہاں ایڈجسٹ کریں گے؟۔ اگر پاکستان واپس جانا پڑا تو گوری کپڑے پھاڑ لیزر نظروں میں کیسے ایڈجسٹ ہوگی۔ یہی رویہ عمومی طور پر انجنیرز، آئی ٹی حضرات اور کاروباری نوجوانوں کا ہے۔ عقل اور دوراندیشی سارے جذبات اور خواہشات کو لگام دیکر رکھتی ہے؛ گویا کہ اس معاملے میں عام پچیس تیس سالہ لڑکے عمران خان سے زیادہ عقل اور فہم رکھتے ہیں۔
خان صاحب نے پوری زندگی عیاشی کی؛ ہر اسٹارعمومی طور پر اور داؤ لگ جائے تو عام آدمی خصوصی طور پر عیاشی کرتا ہے۔ شادی کا وقت آیا تو انکی عقل سوچ نہ سکی کہ اعلیٰ خاندان کی گوری، زمان پارک کیسے رہ سکے گی اور کب تک رہ سکے گی۔ وہی ہوا، ٹائیلوں کے کیس کا بہانہ بنا کربچوں سمیت لندن شفٹ ہوگئی ۔ قصور دونوں کا نہیں تھا تاہم دور اندیشی کا فقدان تھا۔ دوسری بار پوری قوم دھر نوں میں بیٹھی، لوگوں کی جانیں گئیں اور سرکار، انٹرویو لینے والی اینکر پر اینکر (گانٹی) ڈال رہے تھے۔ جب یہ ابھی افواہ ہی تھی تو ہمارے جیسے خان صاحب کے فینز نے ریحام کے بارے میں پڑھنا اور اسکی یو ٹیوب “ویڈیوز” دیکھنی شروع کیں تو ہر ایک کی ایک ہی دعا تھی کہ کاش یہ افواہ غلط ہو لیکن خبر پکی تھی۔ جمائمہ کم از کم اصلی تو تھی لیکن ریحام کی ہر بات سطحی اور ہر انداز “فیک” اور بناوٹی تھا۔ پراسرار طریقے سے طلاق ہوئی اور اب یہاں سے شروع ہوتی ہے بشریٰ بی بی کی کہانی۔
کہتے ہیں کہ اگر رابعہ بصری رحمت اللہ علیہ اور حسن بصری رحمت اللہ علیہ بھی تنہائی میں اکیلے ہوں تو گُناہ سر زد ہوسکتا ہے یعنی کسی نیک سے نیک عورت اور پاک سے پاک مرد کو بھی یہ اجازت نہیں ۔ یہ کون سی “نسوانی روحانیت” تھی جو خان صاحب کو سکون دے رہی تھی۔ بنی گالہ کی پہاڑیوں میں مس پنکی کی صدائیں تو گونج ہی رہی تھیں لیکن عموماً ایسےکوڈ نام کال گرلز یا انکی سپلائر کے ہوتے ہیں تو کبھی سوچا بھئ نہیں کہ یہ کسی روحانی شخصیت کا نام ہوگا۔ لگ بھگ دو سال پہلے قندیل بلوچ نے “ایک ایم این اے کی بہو” کی بنی گالہ آمدورفت کا انکشاف کیا تھا اور اس وقت تک “ بہو”، اپنے خاوند کے ساتھ تھی۔خاوند صاحب نے آج اقرار کیا ہے کہ تین مہینے پہلے “روحانی وجوہات” کی بنا پر طلاق ہوچُکی ہے جبکہ قندیل بلوچ کو قتل ہوئے بھی ڈیڑھ سال ہوچکا ہے۔ یقیناً طلاق ہر جوڑے کو طلاق کا حق ہے لیکن اگر “روحانیت” تیس سالہ شادی جیسے حلال اور مذہبی طور پر افضل ترین رشتے کو تڑوا دے تو روحانیت کی اس قسم کو مذہبی ترازو میں تولنا لازمی ہے۔
شادی کرنا ہر انسان کا حق ہے خصوصاً اگر وہ اکیلا ہو۔ خان صاحب کوئی فرشتہ نہیں اور نہ ہی وہ لوگ جو ان پر اُنگلیاں اٹھاتے ہیں۔ انسان اپنے کردار کے بارے میں خدا کے سوا کسی کو جوابدہ نہیں۔ ہم بھی اس مستقبل کے وزیراعظم کے مدح سرا ہیں، اسی پیج پر خان صاحب کا دفاع کیا جاتا ہے اور آئندہ کیا جائے گا لیکن خان صاحب کو اپنے متلون مزاج رویے پر قابو پانا چاہئیے۔میرا ذاتی خیال ہے کہ خان صاحب کی بشریٰ بی بی سے یقیناً شادی ہو چکی ہے کیونکہ یہ کوئی مذاق نہیں ہے کہ میڈیا پر کسی کی بہن، بیٹی کو پروپوز کر دیا جائے بالخصوص جب وہ روحانی شخصیت ہو۔ اور اگر یہ سچ بھی ہو کہ ابھی مخض پروپوز کیا ہے تو کیا اتنی “نیک نامی” کے بعد خاتون کے پاس اب ناں کرنے کی آپشن بچی ہے؟ مذہب کی پہلے ہی” واٹ” لگی ہوئی ہے، جعلی پیروں نے بہو بیٹیوں کو “نرینہ اولاد” دینے کے چکر میں ہوس کا نشانہ بنا رکھا ہے ابھی حال ہی میں مردانہ تصوف کی سرِ بازار “پین دی سری” کی گئ تھی اور اب خواتین کی روحانیت پر بھی سوالیہ نشان لگ جائے گا۔ عمران خان کو کوئی “ عمرانیات” کا ماہر چاہئے جو انھیں پاکستان کے مستقبل کے وزیراعظم کے شایانِ شان کچھ سلیقہ سکھا سکے۔ مزید برآں، خان صاحب محض چار راز دار لوگوں کی موجودگی میں شادی کرتے ہیں تو “لتر پولا” کرکے چاروں میں سے وہ بندہ ہی ڈھونڈ لیں جو “قبول ہے” کہنے سے پہلے ہی عمر چیمہ کو اطلاع کردیتا ہے اور خدا کے لیے بار بار بیچارے مفتی سعید سے نکاح پڑھوانے کی بجائے شاہ محمود قریشی سے پڑھوائیں تاکہ ہنستے ہنستے مُکر جائے۔ ویسے تو ہر شوہر ہی “رن مُرید” ہے لیکن خان صاحب اس معاملے میں بھی اب ہمارے آفیشل “کپتان” ہیں۔ مُبارک باد قبول فرمائیں!!!!
کالم نگار: راؤ کامران علی، ایم ڈی
ہر بدھ وار کو کالم لکھا جاتا ہے۔ اگر پسند آئے تو شئیر کریں۔ مزید کالم پڑھنے کے لئے اس پیج Tez Hay Nok e Qalam کو like کریں شُکریہ