محترم وزیراعظم؛ آپ کو اندازہ ہی نہیں ہوگا کہ ہم جیسے بیرونِ مُلک پاکستانی آپ کے وزیراعظم بننے پر کتنے خوش ہیں، کتنا فخر ہے اور کتنا مان ہے۔ آپ نے ڈیم کے لئے چندہ مانگا ہے؛ انشاالّلہ پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ محترم قائد، جب آپ نے شوکت خانم کے لئے فنڈ ریزنگ کی تھی، راقم گھر سے واجبی سی پاکٹ منی لیتا تھا لیکن پھر بھی بساط کے مطابق چندہ دیا اور آج تک خواہ بات چندے کی ہو یا زکوة کی، شوکت خانم سب سے پہلے ذہن میں آتا ہے! نمل یونیورسٹی کے لئے بھی ہمارے بھائی بند آپکی ہمشیرہ کا یہاں خیر مقدم کرتے ہیں اور حصہ ڈالتے ہیں۔ محترم قائد، اگر وزیراعظم بن کر بھی ہم نے ہی چندہ دینا ہے تو کیوں نہ بائیس سال پہلے ہی یہ کام کرتے۔ شوکت خانم کی تعمیر میں نون لیگ اور پیپلز پارٹی والوں نے بھی دل کھول کر چندہ دیا تھا تو وہ تو آپکے ساتھ ہر پراجیکٹ میں ہوتے خواہ ڈیم تعمیر کرتے، آکسفورڈ اور ہارورڈ بناتے، بین الاقوامی معیار کے ہسپتال بناتے۔ بائیس سالہ جدوجہد کا نعرہ تھا کہ ٹیکس لیں گے اور کرپٹ لوگوں کے پیٹ سے نکالیں گے تو دیر کیسی؟
گزشتہ سال لاہور میں ایم ایم عالم روڈ پر ایک سٹور پر جانے کا اتفاق ہوا؛ “رالف لارین” کی شرٹ جو یہاں سو ڈالر کی بکتی ہے اور ہم سیل پر پچاس ساٹھ ڈالر یعنی پاکستانی پانچ چھ ہزار کی اٹھا لیتے ہیں ؛ اس سٹور میں چالیس سے پچاس ہزار کی تھی اور لوگ خرید رہے تھے؛ کیا یہ لوگ ٹیکس بھی دیتے ہیں؟ باہر آکر کونے کی دوکان پر خواتین چھینا جھپٹی کر رہی تھیں؛ پتا چلا کہ ملکہ ترنم نورجہاں کی نواسی کا کوئی برینڈ ہے اور اسکی سیل ہے؛ کار خریدی تو “اون” کے نام پر بھتہ دینا پڑا؛ گلی کی نکڑ پر کھڑے ہو جائیں تو پان کھاتے حضرات فرما رہے ہوتے ہیں؛ ایک کروڑ کا پلاٹ دو سال میں چار کروڑ کا ہوگیا؛ جو زرعی ایکڑ چند سال پہلے پانچ پانچ لاکھ کا تھا، ہاؤسنگ سوسائٹی بننے سے یا فیکٹری لگنے سے پانچ پانچ کروڑ کا ہوگیا؛ محترم قائد کیا اتنی تیز اور بھرپور اکانومی آپ نے دنیا میں کہیں دیکھی؟ آپ مین ہیٹن اور ڈیفنس لاہور کی کمرشل گروتھ کا موازنہ کرلیں؛ حیران رہ جائیں گے؛ صرف تجزیہ نگار کی حیثیت سے ہی نہیں ایک انویسٹر کی حیثیت سے دونوں ملکوں میں ذاتی تجربہ ہے؛ لیکن ان سب خرید و فروخت اور منافع کا ٹیکس کہاں جاتا ہے؟ کسی بھی پلازے کے مالک سے پوچھیں کیسے بنایا؟، تو بتاتا ہے کہ وڈا پرا (بڑا بھائی) امریکہ گیا ہے؛ تو حکمران کیوں نہیں پوچھتے کہ رقم “وڈے پرا”نے بینک سے بھیجی یا ہنڈی سے؟ یقین جانیں آدھے ٹیکس کے مسائل اس ایک سوال سے حل ہو جائیں گے۔آپ کسی بھی چھوٹے شہر میں جائیں اور بچے بھی آپکو بتا دیں گے کہ بلدیہ کے چئیرمین کا فیورٹ ٹھیکیدار کون ہے اور بیس پرسنٹ رشوت کس کے ذریعے کس تک پہنچتی ہے تو آپکی انٹیلی جینس بیورو کیا گھاس چر رہی ہے؟
محترم وزیراعظم چند سال پہلے آپ نے بھی ذوالفقار مرزا کی قسموں سے لبریز کرن جوہر کی فلموں سے بھی زیادہ ایموشنل فلم دیکھی ہوگی جس میں وہ ساتھ ہی زرداری کی کرپشن پر قرآن اٹھا رہا تھا اور ساتھ ہی ٹسوے بہاتے اقرار کر رہا تھا کہ زرداری نے مٹی سے اٹھا کر چھ شوگر ملوں کا مالک بنا دیا؛ گمان غالب تھا کہ آپ اقتدار میں آکر اسکے برملا اقرار کے بعد پوچھیں گے کہ میاں “کس طریقے” سے تمھیں زرداری نے “زر دار” بنایا لیکن آپ نے اسکی بیگم کو وزیر بنا دیا جو مشرقی دوپٹہ اوڑھ کر پاکستان کے پانچ کروڑ ڈکار گئی، قرضے معاف کروا کر۔ دو مہینے کی جدوجہد میں محض دو ارب روپے جمع ہوئے؛ اگر مرزا کی ایک شوگر مل بھی لے لیں تو مزید دو ارب ایک ہی جھٹکے میں آ سکتے ہیں۔
میرے عزیز قائد، میرے ہیرو؛ پاکستان میں میرے ساتھی پھر وہی تکرار شروع کردیں گے کہ ابھی حکومت سنبھالے دن ہی کتنے ہوئے ہیں؛ جنابِ عالی “ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات” نظر آرہے ہیں تو تشویش ہو رہی ہے؛ ڈر ہے کہ انتظار کریں تو آپ پہلے کی طرح ہمیں پینتیس پنکچر کے پیچھے پٹواروں کی دھلائی کرتے کرتے ایک دن ہنستے مسکراتے یہ فرما کر کہ وہ تو سیاسی بیان تھا، ہمیں پٹواریوں سے کچھ دن کیلئے چھپنے پر اور “کھّلے کھانے” پر مجبور نہ کردیں یا پھر بھرے جلسے میں ارشاد نہ فرما دیں جیسا کہ آپ نے پہلے پشاور میں فرمایا تھا کہ “اچھا ہوا کہ ہمیں قومی حکومت نہیں ملی، ہم سے چلنی ہی نہیں تھی”۔
عاجزی سے عرض ہے کہ ہم آپکے ساتھ کھڑے ہیں؛ کچھ چندا بھیج دیا ہے اور مزید بھی بھیجیں گے؛ سو بار مانگیں گے سو بار دیں گے؛ لیکن دونوں ہاتھوں سے دولت لوٹتے لوگ، ٹیکس چور ابھی آزاد ہیں؛ ان سے مال نکلوائیں گے تو انصاف کو تحریک ملے گی؛ انشاالّلہ ڈیم ضرور بنے گا اور آپ ہی بنائیں گے! پاکستان زندہ باد!!!!
پس تحریر!!! الّلہ تعالیٰ کلثوم نواز کو جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے! آمین! ان کے لواحقین سے تعزیت ہے؛ پچھلے دنوں امریکہ کی سابقہ خاتون اوّل بار برا بش اپنی ریاست ٹیکساس کے ہسپتال میں اپنے پیاروں کے ہاتھوں میں فوت ہوئیں۔ کاش ہماری سابقہ خاتون اوّل کلثوم نواز بھی پاکستان کے کسی ایسے ہسپتال میں ہوتیں؛ اپنے پیاروں کے درمیان! نواز شریف کم از کم ایک ہسپتال ہی بنا دیتے اپنے والدین کے لئے، بیوی کے لئے اور اب خود کے لئے، بہن بھائیوں کے لئے بھی ضرورت پڑ سکتی ہے۔
کالم نگار: راؤ کامران علی، ایم ڈی
ہر بدھ وار کو کالم لکھا جاتا ہے۔ اگر پسند آئے تو شئیر کریں۔ مزید کالم پڑھنے کے لئے اس پیج Tez Hay Nok e Qalam کو like کریں شُکریہ-