اسیّ کی دہائی میں پاکستان کے چھوٹے شہروں اور قصبوں میں ایک سلسلہ شروع ہوا تھا جس میں ایک چھوٹا سا خوبصورت کنبہ کسی محلے میں شفٹ ہوتا، اپنے رکھ رکھاؤ، اخلاق اور مزے دار کھانوں سے مزین دعوتوں سے اہلِ محلہ کے دل موہ لیتا۔ شوخ سی خاتونِ خانہ روز کسی نئے سونے کے سیٹ سے لدی کسی کے گھر حلوہ لیکر جارہی ہے تو کسی کے قورمہ؛ کسی کو بہن بنا لیا تو کسی کو چاچی تائی! پھر ایک دن ضرورت پڑنے پر صاحبِ خانہ کسی متمول مجلے دار سے ہزار پانچ سو جیسی حقیر رقم ادھار لیتا اور ٹھیک ایک یا دو ہفتے کے بعد سو فیصد منافع کے ساتھ واپس کردیتا کہ “دبئی سے آئی شپمنٹ رک گئی تھی، آپکی بروقت مدد اور رقم کے باعث نکل گئی اور یہ آپکا حصہ ہے”، محلے دار ناصرف خوش ہوتا بلکہ چار لوگوں میں وقت پر قرض کی ادائیگی اور منافع میں “ایماندارانہ” شراکت داری پر تعریف بھی کرتا۔ اگلی مرتبہ صاحبِ خانہ قرض بھی زیادہ لیتا اور منافع بھی زیادہ دیتا؛ یہاں تک کہ پانچ سات لاکھ کا قرض دے دیا جاتا اور پھر راتوں رات وہ کنبہ گدھے کے سر سے سینگ کی طرح غائب ہوجاتا اور محلہ پیٹتا رہ جاتا۔ اس فراڈ کے صدیوں پرانے طریقے کو 1920 میں پونزی کے نام پر پونزی اسکیم رکھا گیا۔ اسکی تعریف ہے
A form of fraud in which belief in the success of a nonexistent enterprise is fostered by the payment of quick returns to the first investors from money invested by later investors.
یعنی کسی کی رقم سے کسی کو بھاری اور فوری منافع دیکر کامیابی کا یقین دلا کر لوٹنا۔
رواں صدی کے اوائل میں پاکستان میں بزناس کے نام سے ایک اسکیم لانچ کی گئی اور وہ بھی پونزی اسکیم تھی۔ بزناس اسکیم کو “پائیرامیڈ اسکیم” بھی کہتے ہیں۔ پائیرامیڈ کی مثال اہرامِ مصر ہیں یا آپ محض مینارِ پاکستان کو ہی دیکھ لیں تو سب سے نیچے کی منزل اگر بیس مربع فٹ چوڑی ہے تو اس سے اوپر اٹھارہ پھر سولہ یہاں تک کہ سب سے اوپر کا کونا بمشکل ایک مربع فٹ قطر کا ہوگا۔ “بزناس” میں ایک سب سے اوپر کا آدمی دو بندوں سے ہزار ہزار لیتا اور ان دونوں میں ہر بندہ اپنے نیچے دو بندے لگاتا اور ہر ایک سے ہزار لیتا، اس طرح چار ہزار آتے۔ ان چار ہزار میں سے ایک حصہ اوپر کی لائن میں دو کو اور بڑا حصہ سب سے اوپر بندے کو جاتا۔ پھر ان چار کے نیچے آٹھ لگتے یعنی آٹھ ہزار آتے، اور ان آٹھ ہزار سے وہ چار بھی پیسے کماتے، اسکے اوپر دو بھی اور سب سے زیادہ ٹاپ پر موجود “چیف فراڈیا”۔
اس زمانے میں، میں اسپیشلائزیشن کے امتحان کی تیاری کررہا تھا، کوئی جاب تھی نہیں اور “کڑکی” کا زمانہ تھا جب ایک دوست نے “صدقِ دل” سے کہا کہ وہ مجھے “بزناس” کی اوپر کی لائنوں میں ایڈجسٹ کردے گا اور ایک دو بندے بھی میں لے آؤں تو دس پندرہ ہزار مہینے کا منافع کہیں نہیں گیا۔ جب تھوڑا سا حساب کتاب کیا تو پتا چلا کہ اکیسویں یا بائیسویں لائن میں پورے پاکستان کی بیشتر آبادی ختم ہوجائے گی اور آخری لائن کے سارے لوگ جو پاکستان کی آدھی آبادی ہوں گے لٹ جائیں گے کیونکہ وہ اپنے نیچے فی کس دو بندے کہاں سے لائیں گے؟ پھر جب ریورس سوچنا شروع کیا تو پتا چلا کہ اصل میں تو یہ ڈاکا ہے سب سے نیچے والے لوگوں کی پیسوں پر جو فراڈ سے اہرامِ مصر کی طرح اوپر اوپر لوگوں کی جیبوں میں جاتے ہیں۔ اور اصل میں تو ہمارے سیاستدان بھی یہی کررہے ہیں۔ اس پورے پاکستان کی آبادی کے وسائل اور آنے والی دولت کا سب سے بڑا فائدہ اٹھانے والا تو ٹاپ پر وزیراعظم ہے اور پھر اسکے دو خاص رشتہ دار پھر چار وزیراعلیٰ اور پھر آٹھ تگڑے وفاقی وزیر پھر سولہ وزیر مملکت پھر چھتیس مشیر پھر بہتر کمیٹیوں کے چئرمین پھر ایک سو سے زائد سینیٹرز پھر دو سو سے زائد ایم این اے اور پھر چار سو سے زائد ایم پی اے اور پھر ہزاروں چمچے کڑچھے!!!اس جمہوریت پر “حسن” عام آدمی کا خون “پونزی طریقے”سے چوسنے سے آتا ہے جو درجہ درجہ، حصہ بقدر جثہ اوپر تک جاتا ہے۔
لگ بھگ پندرہ سال کے بعد “بزناس” کے ذریعے ایک کروڑوں کمانے والے سے ملاقات ہوئی جو کہ سب مال و دولت عیاشی پر لُٹا کر نئی “جُگاڑ” کے چکر میں ہے تو میں نے اس سے پوچھا کہ اتنے لوگوں کے پیسے کھا کر کبھی ندامت یا تاسف نہیں ہوا؟ اس نے جواب دیا، “جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ دو بندے اپنے نیچے لائن میں لگا کر امیر بن جائیں گے یا جو سوچنا یا پوچھنا تک گوارا نہیں کرتے کہ وہ کونسا بزنس ہے جو پندرہ دنوں میں پیسے ڈبل کردیتا ہے، انکا “آئی کیو” بکروں جیسا ہے اور ہر بکرے نے کسی نہ کسی قصائی کے ہاتھوں کٹنا ہوتا ہے ، میں نہیں تو کوئی اور یہ اس وقت بھی کررہا ہے اور یہ ہوتا رہے گا”!!!
کالم نگار: راؤ کامران علی، ایم ڈی
ہر بدھ وار کو کالم لکھا جاتا ہے۔ اگر پسند آئے تو شئیر کریں۔ مزید کالم پڑھنے کے لئے اس پیج Tez Hay Nok e Qalam کو like کریں شُکریہ۔