ڈاکٹر مہدی قمر، ہمارے شہر کولمبس کا ایک مایہ ناز کارڈیالوجسٹ تھا، مئی 2014 میں “احمدیہ طاہر ہارٹ انسٹیٹیوٹ” لاہور میں غریب مریضوں کا مفت علاج کرنے کے لئے گیا اور اپنے بزرگوں کی قبروں کی زیارت کے دوران دو موٹر سائیکل سواروں نے اسے قادیانی ہونے کے باعث بیوی اور کم سن بیٹے کے سامنے دس گولیاں مار کر ہلاک کردیا۔ ہماری پاکستانی بالخصوص ڈاکٹر کمیونیٹی شاک ہوکر رہ گئی۔ ایک طوفان برپا ہوگیا۔ واشنگٹن ڈی سی میں ڈاکٹروں نے کیپیٹل ہل پر جاکر احتجاج کیا۔ ایک طرح سے دہشت طاری تھی کہ آج قادیانی کہہ کر کسی کو مار دیا گیا، کل شیعہ یا اسماعیلی اور پرسوں دیوبندی یا وہابی کہہ کر مار دیا جائے گا۔ کولمبس اوہائیو سے ہر سال “اپنا اوہائیو” چیپٹر دو سے تین ٹرک میڈیکل سپلائز کے پاکستان بھیجتا ہے تو اس کا نام تبدیل کرکے “ڈاکٹر قمر مہدی پراجیکٹ” رکھ دیا گیا۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان دو موٹر سائیکل سواروں کی ڈاکٹر مہدی قمر سے کوئی ذاتی دشمنی تھی؛ ظاہر ہے نہیں تو پھر کیوں مارا؟ جواب ہے قادیانیت کو دبانے کے لئے؛ تو کیا قادیانیت اس سے دب گئی؟ جواب ہے کہ نہیں بلکہ بدقسمتی سے فروغ ملا۔ ڈاکٹر مہدی قمر کے امریکی شہری ہونے کے باعث کیپیٹل ہل سے لیکر انٹرنیشنل میڈیا، این بی سی، سی این این پر اسکا ذکر ہوا؛ ساتھ ہی ذکر ہوا کہ ایک قادیانی ڈاکٹر کا کتنا بڑا دل تھا کہ ڈالرز چھوڑ کر مفت علاج کرنے گیا؛ پھر اسے ہمدردی ملی کہ بیوی بچے کے سامنے درندگی سے مار دیا گیا اور اسکے ساتھ ساتھ قادیانی کمیونٹی کے پاکستان میں غیر محفوظ ہونے کا پوری دنیا کو پتا چلا۔ اب آپ بتائیں کہ دو جاہل قاتلوں یا انھیں اکسانے والے کسی نام نہاد عاشقِ اسلام نے اسلام اور پاکستان کا بھلا کیا یا نقصان؟ اسی لئے جذبات پر عقل کو فوقیت حاصل ہے۔
اب آجاتے ہیں پروفیسر عاطف میاں کی جانب؛ یہ ملک کے لئے اہم کیوں ہے اور کیا اسکے قادیانی ہونے سے قابلیت کو سراہانا بند کردیں؟ یہ تینتالیس سالہ نوجوان معاشیات کی دنیا کا ابھرتا ستارہ ہے اور نیو جرسی کی پرنسٹن یونیورسٹی (آئی وی لیگ) میں پروفیسر ہے۔ حالیہ صدی میں مایئکرو یعنی چھوٹے لیول کی اکانومی پر بڑا کام ہوا لیکن پاکستان کا اصل مسئلہ “میکرواکانومی” ہے اور عاطف میاں اس فیلڈ میں اتھارٹی سمجھا جاتا ہے۔ قرضوں سے متعلق اسکی کتاب “ہاؤس آف ڈیٹ” کو فنانشل ٹائمز نے بک آف دی ائیر کا خطاب دیا اور اس پر اسے “گورڈن لنگ” ایوارڈ ملا۔ آئی ایم ایف کے مطابق یہ وہ چمکتا ستارہ ہے جو گلوبل اکانومی بدل سکتا ہے۔ اب جب آئی ایم ایف کسی کی تعریف کرے تو دنیا میں بہت سے ترقی پذیر ممالک ایسے بندے کو ویسے ہی بورڈ پر رکھ لیتے ہیں کہ چلو اسکے منہ پر ہی قرضہ مل جائے گا اور یہ ہمارا اپنا پاکستانی بندہ ہے مگر کیا عقیدے کے باعث اسے بھگا دیں؟
مذاہب اور عقیدے ایسے دبانے سے نہیں دبتے بلکہ انھیں جلا ملتی ہے۔ عاطف میاں سے “دشمنی” نبھانے کا حق یہ بنتا ہے کہ اسے آنے دینا چاہئیے اور پھر جو بریلوی، دیوبندی، وہابی اور شیعہ حضرات امریکہ جاکر یہ علم نہیں حاصل کرسکتے، عاطف میاں کا نالج “چُوس” لیں اور اسکے برابر آجائیں تاکہ آئی ایم ایف آپکا بھی ذکر کرے دنیا میں آپکا چرچا ہو اور آپ ایک “قادیانی” سے آگے نکل جائیں۔ ایک پاکستانی اپنے دوسرے پاکستانیوں کی اکانومی اور قرضے کی صورتحال کو بہتر کرنے کیلئے کوشش کرنے کا خواہاں ہے؛ اسے روکنا ایسے بند کو توڑنے کے مترادف ہے جو پانی کے بہاؤ کے سامنے سینہ تان کر آپکے گاؤں کو، آپکے بچوں کو بچانے کی کوشش کررہا ہو۔ کم از کم اسے کوشش تو کرنے دیں؛ ہمارا ایمان اتنا کچا نہیں کہ اسے ایک قادیانی سے ڈر ہو۔ رہے نام الّلہ کا!!!!!
کالم نگار: راؤ کامران علی، ایم ڈی
ہر بدھ وار کو کالم لکھا جاتا ہے۔ اگر پسند آئے تو شئیر کریں۔ مزید کالم پڑھنے کے لئے اس پیج Tez Hay Nok e Qalamکو like کریں شُکریہ-