یاری کی سواری

یہ ایک بڑی تنظیم کا رات کا فنکشن تھا۔ تنظیم سے تعلق رکھنے والا ایک متحرک جوڑا اپنی تمام صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ایک تاریخی فنکشن کا خواہاں تھا۔ دونوں میاں بیوی نے مہینوں کی انتھک محنت کے بعد ناصرف خطیر رقم خرچ کی بلکہ سیاسی تعلقات استعمال کرکے، ایک مہنگے ترین گلوکار اور ایک کانگرس مین کو مدعو کیا تھا۔ محنت رنگ لائی تھی، دو ہزار کے قریب اشرافیہ موجود تھی۔میرے اندر خواہش جاگ رہی تھی کہ میں بھی اس پرجوش جوڑے کی طرح کچھ کرکے دکھاؤں۔اتنے میں سوٹ بوٹ میں ملبوس ایک خوبرو شخص “پی کے” کی طرح رنگ برنگے دوپٹّے اٹھائے ہال میں داخل ہوا۔ پہلی نظر میں سمجھ نہ آیا کہ اتنی ایلیٹ محفل میں دوپٹّے بیچنے والا کیسے آگیا لیکن وہ شخص ساری قطاریں توڑتا ہوا پہلی رو میں آگیا اور ساری کرسیاں خالی کروا کر وہاں دوپٹّے رکھ دئیے تاکہ یاروں دوستوں کیلئے جگہ “مَل” لے۔فنکشن کے میزبان میاں بیوی ہکا بکا رہ گئے جب انکے بچوں سے بھی کرسیاں خالی کروا کر پیچھے بھیج دیا گیا۔ ایک منتظم نے پوچھا کہ بھائی آپ کون ہو تو اس نے اپنے سینے سے لٹکتی کوئی چیز دکھائی اور منتظم سہم کر پیچھے ہٹ گیا۔ میرا ماتھا ٹھنکا کہ ہو نہ ہو یہ “پی کے” کے“ریموٹوا” سے ملتی جُلتی کوئی چیز ہے۔ یہ شک یقین میں بدل گیا جب سیکیورٹی اہلکار “ریموٹوا” دیکھ کر اسے سلام کرنے لگ گئے اور وہ بڑی شان سے اسٹیج پر چڑھ کر “ہیرو پنتی” کرتا نظر آیا۔ میں نے سوچا کہ کیا ضرورت ہے اس جوڑے کی طرح مہینوں دن رات محنت کرنے اور پیسے خرچ کرنے کی، بس کسی طرح یہ “ریموٹوا” مل جائے تو مزے ہی مزے۔ میں نے اس سوٹ بوٹ میں ملبوس شخص کا پیچھا کرنا شروع کردیا، لمبی بھاگ دوڑ کے بعد بہانے سے اس “ریموٹوا” کا دیدار ہوا تو اس پر لکھا تھا “ALL ACCESS PASS” گویا یہ تھا “ریموٹوا” کا نام!!!

اب اگلا مرحلہ تھا اسکے حصول کا۔ “باوثوق ذرائع” سے پتا چلا کہ اس کا حصول صرف تنظیم کے “جنابِ صدر” کی خوشنودی سے ہی ممکن ہے۔ اب میرا نصب العین، تنظیم کے لئے سب مثبت اور تعمیری کام کاج کو چھوڑ کر جنابِ صدر کی خوشنودی تھا۔ پاکستانی ہونے کے ناطے یہ مہارت حاصل کرنا کچھ مشکل نہ تھا سو کچھ ہی عرصے کے بعد یہ “ریموٹوا” اس خاکسار کے چوڑے سینے پر لوٹیاں لگا رہا تھا۔ جیسے مختلف رنگ کی عینک لگاتے ہی دنیا کے رنگ بدل جاتے ہیں، ریموٹوا کے آتے ہی میری زندگی کے رنگ بدل گئے۔ جو مجھے سلام کرنا گوارا نہیں کرتے تھے، “جپھیاں” ڈالنے لگے۔ ایک بندے نے میرے سامنے کھڑے ہوکر کہا “بھئی میٹنگ کا انتظام بہت شاندار ہے”، میں نے ادھر ادھر دیکھا تو کوئی اور نظر نہ آیا، گویا وہ مجھ سے ہی مخاطب تھااور پھر مجھے ایک دم یاد آیا کہ “ریموٹوا” کی وجہ سے یہ کریڈٹ بھی مجھے ہی لینا ہے؛ میں نے انکساری کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا “آج میری مہینوں کی محنت رنگ لے آئی اگر آپکو انتظامات پسند آئے”۔ ریموٹوا نے مجھے جانِ محفل بنا دیا تھا۔ جو جوڑے ماضی میں نظر انداز کرکے پاس سے گزر جاتے تھے رک رک کر سلام کرتے اور شوہر حضرات میرے ساتھ اسکول، کالج یا “گلی ڈنڈے”، “پٹھو گرم” کا کوئی تعلق نکال کر بیگمات سے تعارف کرواتے اور انکی آنکھوں میں تحسین کے جذبات نظر آتے۔ میں فرطِ جذبات میں بے اختیار ہوکر “ریموٹوا” کو چوم لیتا۔

مزید تعریفی اور خوشامدانہ کلمات کے حصول کے لئے میٹنگ ہالز کا جائزہ لینے کی ٹھانی۔ ایک ہال کے سامنے پختہ عمر کے دو خوش لباس اور خوش گفتار حضرات “بچوں کے ساتھ زیادتی کے روک تھام” پر سیمینار کے لئے لوگوں کو دعوت دے رہے تھے۔ نوجوان لڑکیوں کے ایک گروپ کو اپنی جانب آتے دیکھ کر خوش ہوئے کہ نوجوان نسل میں آگاہی بڑھ رہی ہے لیکن اس گروپ میں سے ایک لڑکی نے پوچھا انکل آج پہلے آئمہ بیگ گائے گی یا میکاسنگھ اور پھر چیونگم چباتا یہ گروپ دونوں معزز حضرات کو ہکا بکا چھوڑ کر رواں دواں ہوگیا۔ میں نے دل ہی دل میں کہا”اور کرلو سیمینار وڈے انقلابیو” لیکن اوپر اوپر سے دونوں انگوٹھے نکال کر انکی کاوشوں کی داد دی۔ تھوڑا آگے جاکر ایک پریشان حال، ہلکی سی داڑھی والے ڈاکٹر کو “ایڈووکیسی ورکشاپ” اٹینڈ کرنے کے لئے لوگوں کی منتیں ترلے کرتے دیکھا۔ جنھیں اس ڈاکٹر کی طرح “سیاسی کیڑا” تھا وہ تو جوق در جوق اٹینڈ جارہے تھے لیکن باقی اس سے چھپتے پھر رہے تھے تاکہ کسی مزاحیہ فنکار کا شو اٹینڈ کرسکیں۔ ایک بار پھر “ریموٹوا” چوم کر شکر ادا کیا کہ میں مفت میں”انجوائے” کر رہا ہوں ان سب کی طرح تنظیم کیلئے مشقت کرتے ہوئے خجل نہیں ہورہا۔ آخر میں بڑھی شیو کے ساتھ ایک خوبرو ڈاکٹر نظر آیا جو پوری میٹنگ میں “جاری طبی تعلیم” کروا کر تھک کر مرنے والا ہو رہا تھا۔ رات کو مین فنکشن میں بینکوئٹ ہال میں داخل ہوتے ہی سب سے آخر میں اسکی میز نظر آئی۔ بڑی مشکل سے ہنسی پر قابو پایا۔ دل میں سوچا کہ اسنے تکلف ہی کیا ہے ٹکٹ لینے کا؛ اتنی دور بیٹھ کر دیکھنا تو بہتر تھا، پیسے بچاتا اور ہال سے باہر کھڑا ہوکر ہی دیکھ لیتا سارا شو! اگر کوئی امریکی تنظیم ہوتی ہے تو یہ سب انتھک کام کرنے والے لوگ “وی آئی پی” ہوتے؛ لیکن “فرسودہ” انگریزوں کو یاریاں نبھانے کی کیا تمیز! اپنے ہاں تو “سچی یاری سب پہ بھاری” ہی کا بول بالا ہے۔

سنا تھا قرض کے اترنے سے جو دل کو سکون ملتا ہے اسکی مثال نہیں لیکن اس روز جان بھی لیا۔ گزشتہ کئی سالوں سے جو دوستوں کی دعوتیں، گریجویشن پارٹیاں، عزیزوں کے “نیوندرے” سر پر تھے سارے یکلخت اتار دئیے۔ جو یار لوگ کبھی “ڈیڑھ سو ڈالر”میں عاطف اسلم کا کنسرٹ “آدھے کلومیٹر” کی دوری سے دیکھتے تھے، انھیں عاطف سے کوئی پانچ فٹ کی دوری پر بٹھا دیا۔ کسی کی میکا سنگھ سے سیلفیاں تو کسی کی نیہا ککڑ کے ساتھ باچھیں نکالتے ہوئے تصاویر۔ جب بھائی کا راج ہو تو یار کیوں نہ مزے کریں۔ اب تو سارے ارمان پورے ہوگئے ہیں اور بس عمرہ کرنے کی حسرت ہے؛ اگر ایسے ہی کوئی جُگاڑ لگ گئی تو۔سب بھائیوں سے دعاؤں کی اپیل ہے!!!

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *