بچپن سے شہر کے سب سے کرپٹ شعبوں اور عہدوں میں پٹواری اور ایس ایچ او کو سرفہرست پایا۔ ایک عام آدمی ڈرتا، جھجکتا، منت ترلے کے ساتھ ان عہدیداروں کے پاس جاتا؛ جیب لٹوا کر یا بے عزتی کروا کر آجاتا۔ کوئی تھوڑا کھاتا پیتا ہوتا تو اے سی یا ڈی ایس پی تک پہنچ جاتا اور بڑے بڑوں کی دوڑ پولیس اور انتظامیہ کے ضلعی عہدیداروں تک ختم ہوجاتی اور ایکسپوژر کے باعث یہی عہدے زیادہ ذلت اور طعنے سمیٹتے۔ پروفیشنل آرمی چیف ہمیشہ مارشل لا سے اس لئے اجتناب کرتا ہے کہ ان عہدوں کی جگہ میجر، کرنل لے لیتے اور جو تحصیلدار اے سی کے نام پر رشوت لیتا اب میجر اور کرنل کو بدنام کرواتا وجہ وہی؛ ایکسپوژر۔ مشرف کے آخری سال میں فوجی افسران فوجی وردی پہن کر نہیں نکل سکتے تھے۔ اسکول کے سب سے نالائق طالبعلم یا صحافی بنتے ہیں یا وکیل؛ نالائق عموماً بدتمیز ہوتا ہے اور مذکورہ بالا دونوں شعبوں میں بدتمیزی طرہ امتیاز سمجھی جاتی ہے بلکہ صحافی کی بدتمیزی بلیک میلنگ اور وکیل کی بدتمیزی جج کو یرکانے کے کام آتی ہے۔ وکیلوں کی بدتمیزی اور بیڈ کوپ بننے کے چکر میں جج پردے میں تھے اور ان کی عزت بچی ہوئی تھی جو کہ آہستہ آہستہ لٹتی جارہی ہے۔
شریف برادران کا طرہ امتیاز ہے کہ ہر اہم محکمے کے سپاہی سے لیکر افسر تک اپنے ہاتھوں میں لیتے تھے۔ نواز شریف کے وزیر خزانہ اور پھر وزیر اعلیٰ کے دور میں یہ کام شروع ہوا اور سپاہی سے لیکر اے ایس آئی اور نائب تحصیلدار تک کے کوٹے سیاستدانوں؛ جبکہ جونئیر ججوں کی تعیناتی، پروموشن اور من پسند وکیلوں کو جج بنانے کا کام اپنے ہاتھ میں رکھتے۔ زرداری کرپٹ تھا لیکن وہ سیاسی مکاری سے زیادہ بدمعاشی کا شوقین تھا تو اداروں کو گراس روٹ لیول پر قابو میں نہ کرسکا اور جب بینظیر بھٹو کو پتا چلا کہ اداروں کو کنٹرول کرنا ضروری ہے تو اس نے بے ہنگم طریقے سے 1993 میں ڈائریکٹ ہائی کورٹ کے جج؛ کسٹم، پولیس انٹیلی جنس میں بھرتیوں کی بارش کردی۔ یہی وہ زمانہ ہے جس میں اسپیکر گیلانی نے پانچ ہزار بھرتیاں کی اور جیل میں بیٹھ کر رنگ بازی کرکے “چاہ یوسف سے صدا” لکھتا رہا۔
آپ شریف برادران کا کمال دیکھیں کہ 1997 میں واپس آکر؛ زرادای اور بینظیر کی مالی کرپشن کو انکا “حق” سمجھ کر نظر انداز کیا لیکن انکے لگائے سپاہی سے لیکر ہائی کورٹ کے جج پہلے مہینے نکال باہر کیے۔ 2008 میں زرداری نے ان سب نکالے گئے افسران کو دس دس سال کی تنخواہ دے دی اور پھر 2013 میں نواز شریف نے تنخواہ دینے پر ایکشن نہیں لیا لیکن بندہ انکا ایک نہیں ٹکنے دیا۔ یہ ہے اس شریف مافیا کی طاقت کا راز۔ انکے تانے بانے ایسے بنے ہوئے ہیں انتظامیہ اور عدلیہ میں کہ کوئی انکا بال باکا نہیں کر سکتا۔ سوائے چند ایک پیری مریدی حلقوں کے؛ پیپلز پارٹی کے دور میں بھی آپکا جو کام منتخب پیپلز پارٹی کا ایم این اے نہ کروا سکتا ہو وہ ہارا ہوا ن لیگ کا ایم این اے کروا دیتا تھا! کیسے؟ آج پی ٹی آئی ضلعی لیول پر خوار کیوں ہو رہی ہے؟ ایس پی کو لیکر آتا ہے پی ٹی آئی کا بندہ؛ گورنر سرور اور بزدار میں چومکھی لڑوا کر اور وہ افسر صبح شام ن لیگ کی کسی ہستی کے ڈیرے پر بیٹھا ہوتا ہے۔ “تبدیلی” اتنی بڑی تبدیلی ہضم نہیں کرسکتی۔
پاکستان کے ججوں کی عزت پر سب سے بڑا حملہ 2011 کی ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ میں ہوا۔ کوئی خواب میں بھی نہیں سوچ سکتا تھا کہ پاکستان کا سب سے کرپٹ ادارہ عدلیہ ہوگی۔ یہ وہ درخت ہے جس کا بیج تیس سال پہلے بویا جاچکا ہے۔ اگر عدلیہ چاہے تو امریکہ کی ریاست ورجینیا سے چھپنے والے اخبار پر ایکشن لے سکتی ہے جس میں پاکستانی عدلیہ کوof the riches…… گیا ہے؛ ترجمہ آپ خود کرلیں؛ شرم آتی ہے یہاں لکھتے۔ ہوسکتا ہے کہ عدلیہ نے اپنے مطابق نواز شریف کے ساتھ انصاف کیا ہو لیکن بیس بیس سال سے الجھے کیسوں کو چھوڑ کر چھٹی والے دن عدالت لگا کر، عدلیہ نے ایک عام آدمی کے منہ پر جو طمانچہ مارا ہے اسکی گونج عدلیہ کے اپنے ہی کانوں کے پردے پھاڑ دے گی۔ عدلیہ توہین عدالت کے لئے تیار رہے؛ عنقریب پاکستان کی جیلیں کم پڑ جائیں گی توہین عدالت کے جرم میں گرفتار ہونے والوں سے؛ پاکستان کے لاکھوں افراد جو روز ہائی کورٹ کے چکر لگاتے ہیں؛ انھیں توہین انسانیت؛ توہین مساوات کے جرم میں ہائی کورٹ کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کرنی چاہئے کہ کیسے لوگ تین پشتوں تک کیس لڑتے ہیں اور کیسے ہفتے میں فیصلہ آگیا؟۔ اداروں کی توہین انسانوں کی توہین سے بڑھ کر نہیں ہوسکتی ورنہ ایسے اداروں کی کوئی ضرورت نہیں۔
کالم نگار: راؤ کامران علی، ایم ڈی
ہر بدھ وار کو کالم لکھا جاتا ہے۔ اگر پسند آئے تو شئیر کریں۔ مزید کالم پڑھنے کے لئے اس پیج Tez Hay Nok e Qalam کو like کریں شُکریہ-