دنیا میں عموماً لوگ دو خوبیوں کی وجہ سے کسی بھی نوکری کے لئے چُنے جاتے ہیں۔ قابلیت میں تعلیمی قابلیت کے ساتھ تجربہ شامل ہے لیکن ایمانداری پتا نہیں کیسے اور کب میرٹ کا حصہ بن گئی۔ اکثر افسران کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ وہ بڑا ایماندار تھا رشوت نہیں لیتا تھا؛ لیکن یہ کیسے خوبی بن گئی۔ آپ کھانا کھاتے ہیں، آپکا معدہ ایمانداری سے ہضم کرکے؛ چھوٹی آنت ایمانداری سے کارآمد اجزا کو واپس کھینچ کر بڑی آنت ایمانداری سے فضلے کو باہر نکال دیتی ہے؛ کیا کبھی اس ایمانداری کی تعریف ہوئی؟ گردے ایمانداری سے خون صاف کرکے، مثانہ رشوت لئے بغیر سکون سے باہر نکال دیتے ہیں؛ کبھی تعریف ہوئی؟ خون کی نالی صرف دو منٹ، جی دو منٹ کے لئے دماغ کو ایمانداری سے خون نہ پہنچائے تو باقی زندگی انسان وینٹیلیٹر پر سبزی کی طرح پڑا رہتا ہے، بغیر دماغ کے اور ایسے ہی مرجاتا ہے۔ دل کی سب سے چھوٹی نالی بے ایمان ہوجائے تو انسان سینہ پکڑ پر ہسپتال پہنچ جاتا ہے اور اگر بڑی نالی یا ردھم بے ایمان ہوجائے تو “مرحوم نے سجدے میں ہی دم توڑ دیا” یا پھر “سوئے نہیں اٹھے” سننے میں آتا ہے۔ گویا قدرت کا نظام ہی ایمانداری پر ہے اور یہ کوئی خوبی نہیں بلکہ ایک بنیادی جزو ہے انسانی مشین کے کام کا۔
قابلیت بہرحال ایک اہم چیز ہے لیکن کیا دنیا میں سب سے بہترین کام اس شعبے کے قابل ترین لوگوں نے کئے ہیں؟ غالباً نہیں۔ دماغ کے لامحدود ہونے کی مثال اپنی جگہ لیکن ترجیحات کی اہمیت اس لامحدودیت میں اتنی زیادہ ہے جیسے آپ ایک زندگی میں دنیا کا ہر شہر دیکھ سکتے ہوں؛ ہوائی جہاز بھی آپکے پاس ہو، وسائل بھی ہوں لیکن کیا آپ لندن سے شروع کریں گے یا لنڈی کوتل سے شروع کریں گے؟ جبکہ اگر آپ کے پاس محض نیویارک یا ٹوکیو کی آپشن ہو تو کام آسان ہوجاتا ہے۔ ایک مقام پر آکر قابلیت میں اگر انیس بیس کا فرق ہو تو ترجیحات، اگلے مقام اور کامیابی کا تعین کرتی ہیں۔
ایمانداری اور قابلیت ایسی میٹھی اور فریبی گھمن گھیری ہے کہ جس میں الجھ کر ہم اگلی اسٹیج تک جا نہیں پاتے ہیں اور وہ ہے کمپلیکس۔ کمپلیکس کی بذات خود اردو مجھے کبھی نہیں ملی۔ یہ عموماً احساس کمتری یا احساس برتری کے طور پر لکھا جاتا ہے اور اگر برتری یا کمتری الگ کردیں تو محض احساس رہ جاتا ہے اور کمپلیکس کو احساس لکھنا اسے مہمل بنانے کے مترادف ہے۔ نئی تحقیق کے مطابق احساس برتری بھی احساس کمتری کی ایک شکل ہے گویا وہ انسان جو اندر سے کمتر ہے، خود کو برتر ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اگر آپ نے پاکستان میں کسی بھی سیاستدان، جج؛ فوجی یا سول افسر کو پاکستان کا بیڑا غرق کرنے کی کوشش کرتے دیکھا ہے تو اس میں ایک فیکٹر لازم ہوگا اور وہ ہوگا “کمپلیکس”؛ زیادہ تر میں احساس کمتری۔ آپ جنرل مشرف کی ان دی لائن آف فائر پڑھ لیں یا جنرل شاہد عزیز کی یہ خاموشی کب تک؛ احساس کمتری کو برتری بنانے کی کوشش کی گئی ہے؛ نواز شریف کو بھٹو بننے کا کمپلیکس فوج سے لڑواتا رہااور انکے صنعتکارابا جان کو رانا پھول کی طرح جاگیردار بنے کا کمپلیکس رائے ونڈ کے کسان اجاڑ گیا؛ زرداری کو شریفوں کی طرح مالدار بننے کا کمپلیکس کرپشن کو نئی حدوں تک لے گیا؛ سیاستدانوں کے کمپلیکس سے کہیں زیادہ نقصان اس ملک کو ججوں اور جرنیلوں کے کمپلیکس سے ہوا ہے خواہ میٹرک پاس ضیا الحق ہو یا شراب کا رسیا یحیٰ خان؛ “ڈرتا وڑتا نہیں ہوں” والا مشرف یا پراپرٹی ٹائیکون بننے کے شوقین کا چین سموکر جرنیل بھائی؛
جسٹس افتخار چوہدری کے لئے ہم جیسے لوگ بھی سڑکوں پر آگئے؛ امریکہ میں اسکا استقبال کیا لیکن اسکے نالائق بیٹے کا کوٹے پر زبردستی ڈاکٹر بننے اور وہاں سے بغیر سی ایس ایس، چلبل پانڈے بننے اور پھر ڈان بننے کا کمپلیکس پوری قوم کے ارمان ڈبو گیا۔ نیشنل ٹی وی پر ملک ریاض پینتیس کروڑ دینے کی رشوت کا اعتراف کرتا ہے اور کمپلیکس کا شکار افتخار چوہدری اس کو اعتراف جرم قرار دیکر سو موٹو نہ لے سکا۔ اور اب سڑکوں پر خجل ہورہا ہے۔ ثاقب نثار؛ جس کے پیچھے لگ کر ہم جیسے (جو سیانے بنے پھرتے ہیں) پچھلے سال ڈیم کے لئے چندہ دے رہے تھے اور مانگ رہے تھے۔ اور یہ ڈیم ڈرامہ تو برداشت کر لیتے لیکن اس کمپلیکس کے شکار جج کے نالائق بھائی ساجد نثار جس نے کبھی ایک دن انٹرنیشل ٹریننگ نہیں لی اور پھر بھی پاکستان میں پندرہ بیس لاکھ ماہانہ کما رہا ہے کو ڈپلومیٹ امریکن بورڈ ڈاکٹر سعید اختر کی بارہ لاکھ کی تنخواہ پر آگ لگ گئی اور کمپلیکس کا شکار دو بھائیوں نے پورے پی کے ایل آئی کو تباہ کردیا۔ اگر علم نہ ہو ایکسپوژر نہ ہو تو سمجھ آجاتی ہے لیکن ثاقب نثار کے اپنے بچے امریکہ میں رہتے ہیں اور یہ یہاں آکر ڈاکٹروں سے ملتا جلتا ہے تو اسے نہیں پتا کہ ڈپلومیٹ امریکن بورڈ کی تنخواہ کتنی ہوتی ہے؟ لیکن کمپلیکس کا کیا علاج؟ یہی چیختا چلاتا کمپلیکس، نیشنل ہاسپٹل لاہور کے ڈریس ڈئزائنر مالک پر نکلتے ہوئے پوری قوم نے دیکھا؛ کبھی اس طرح اعتزار احسن جیسوں پر چیختے نہیں دیتا جو دو دو کروڑ کا ایڈوانس (retainer) لے کر کیس پکڑتے ہیں؟
اعلیٰ منصب کے لئے چنتے وقت، ایمانداری اور قابلیت کے ساتھ دھیان کمپلیکس پر رکھنا بھی بہت ضروری ہے ورنہ ڈان بچے جیسوں کی مونٹی کارلو میں جوئے یا نالائق ڈاکٹر بھائی جیسوں کی دوسروں کی تنخواہ پر لگنے والی لوگ بہت کچھ جلا دے گی!!!
کالم نگار: راؤ کامران علی، ایم ڈی
ہر بدھ وار کو کالم لکھا جاتا ہے۔ اگر پسند آئے تو شئیر کریں۔ مزید کالم پڑھنے کے لئے اس پیج Tez Hay Nok e Qalam کو like کریں شُکریہ-