امریکہ کے دارالحکومت واشنگٹن میں کیپیٹل ہل کی پر شکوہ عمارت میں داخل ہوتے وقت دل خوشی سے جھوم رہا تھا۔ ایک سیاسی کارکن ہونے کی حیثیت سے اس طاقت کی ان غلام گردشوں میں سال میں متعدد بار آنا جانا ہوتا ہے لیکن اس بار سماں ہی کچھ اور تھا، یہ ۲۴ جولائی کی شام تھی اور ہمارے محبوب وزیراعظم عمران خان امریکی کانگریس اور سیینیٹرز سے خطاب کرنے اسپیکر ہاؤس داخل ہورہے تھے۔ انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئیں اور عمران خان کانگریس مین اور سینیٹرز کے درمیاں ایسی شان سے داخل ہوا جیسے “تاروں کے جھرمٹ میں چندا چلے”! کیپیٹل ہل دنیا کی طاقت کا بلا مبالغہ مرکز ہے، کوئی دن ایسا نہیں جاتا جب کوئی وزیراعظم یا صدر، آشیرواد لینے کے لئے یہاں نہ آتا ہو اور کانگریس اور سینیٹ کے ارکان رسمی مسکراہٹ سے استقبال کرکے کاروائی ڈال دیتے ہیں لیکن یہاں تو سماں ہی اور تھا۔ اچھی خاصی عمروں کے اراکین عمران خان سے تصویریں کھنچوانے کے لئے بے قرار ہورہے تھے۔ راقم نے عمران خان سے ہاتھ ملایا اور اپنا اور اپنی پاک پیک تنظیم کا تعارف کروایا جس نے اس ایونٹ میں اہم کردار ادا کیا تھا، عمران خان نے شکریہ ادا کیا اور پھر سیکرٹ سروس کے حصار میں پوڈیم پر پہنچ گیا جہاں بیس کے قریب کانگریس مین اور سینیٹرز بے تابی سے انتظار کررہے تھے۔ سپیکر نینسی پلوسی سے لیکر کانگریس وومین شیلا جیکسن اور سینیٹر وان ہیلن سے لیکر کانگریس مین جم بینکس تک نے عمران خان کو اپنے خطاب میں وہ عزت دی جس کا ہمارے ملک کا وزیراعظم مستحق تھا۔سب سینیٹرز اور کانگریس مین کا نام لکھا تو کالم بہت لمبا ہوجائے گا۔ تقاریر کے بعد وزیراعظم عمران خان کو اسپیکر کے ذاتی کمرے میں لے جایا گیا جہاں پھر کانگریس مین اور سینیٹرز بچوں کی طرح تصویر کھچوانا چاہ رہے تھے۔ اسپیکر کا ذاتی کمرہ الگ حصے میں ہے جہاں سیکیورٹی الگ ہوتی ہے اور ریگولر پاس کام نہیں کرتے! کیلیفورنیا کا کانگریس مین بریڈ شرمن میرے ساتھ کھڑا تھا اور سیکیورٹی آفیسر نے اسے بھی جانے کو کہا، ادھیڑ عمر کانگریس مین نے بچوں کی طرح جھجھکتے ہوئے کہا کہ وہ تصویر اتروا کر جائے گا۔ میں نے بمشکل اپنی ہنسی پر قابو کیا۔ آپ ٹویٹر پر اسکی عمران خان کے ساتھ تصویر دیکھ سکتے ہیں جو کہ اس نے فخر کے ساتھ شئیر کی۔
ایک دن قبل عمران خان کی ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ دبنگ اور نتیجہ خیز ملاقات آپ دیکھ سکے ہیں اور اس سے پہلے تیس ہزار کے لگ بھگ پاکستانی امریکیوں کی عمران خان سے والہانہ محبت! اتنے بڑے ہجوم نے بھی سیاستدانوں کے دلوں میں عمران خان کا رعب پیدا کردیا! سیاستدان کی غذا،عوام کی پسند کا ٹرینڈ اور لہر ہے اور جب مضبوط اور امیر پاکستانی امریکن کسی کو اتنا چاہتے ہیں تو انکے حلقوں کے کانگریس مین اور سینیٹرز اس لیڈر کو اہمیت دیکر حلقوں کے ووٹرز کے دل جیتنا جانتے ہیں! اس سب کے ساتھ ساتھ ان لوگوں کا ذکر کرنا بہت اہم ہے جنہوں نے عمران خان کی ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ ملاقات کو ممکن بنایا اور ان سب میں سب سے اہم نام طاہر جاوید کا ہے۔
طاہر جاوید ہیوسٹن کے مضافات بوماؤنٹ کے علاقے سے تعلق رکھنا والا بڑا بزنس مین ہے، ارب پتی ہونے کے باوجود بےحد ملنسار اور خوش اخلاق انسان ہے۔ ہیلری کلنٹن کی مہم میں اسکا دایاں بازو تھا اور بیس ملین ڈالر سے زیادہ فنڈ ریزنگ کی۔ اگر ہیلری جیت جاتی تو شاید پہلا دورہ پاکستان کا کرتی۔گزشتہ سال ڈیموکریٹک پارٹی سے کانگریس کا الیکشن لڑا اور مکمل “گورے حلقے” سے ہارنے کے باوجود نمایاں ووٹ حاصل کرکے ڈیمو کریٹک پارٹی میں ہلچل مچادی! طاہر، گزشتہ کئی سالوں سے امریکی کانگریس میں پاکستانی گروپ بنانا چاہ رہا تھا جسے سیاسی ٹرم میں کاکس (caucus) کہتے ہیں۔ اسکا ڈیموکریٹس میں وہ مقام ہے کہ بیس کانگریس مین ایک فون کال پر اس “کاکس” کا حصہ بننے پر تیار ہوگئے لیکن کوئی ریپبلیکن کانگریس مین تیار نہیں تھا۔ طاہر جاوید نے ہماری تنظیم پاک پیک (پاکستانی امریکن پولیٹیکل ایکشن کمیٹی) سے مدد مانگی۔ پاک پیک دونوں دھڑوں کے ساتھ کام کرتی ہے۔ ہمارا مقصد پاکستانی امریکیوں کا سیاست میں کردار ادا کرکے پاکستان کی مدد کرنا ہے خواہ ریپبلیکن سے ہو یا ڈیموکریٹ سے اس لئے ڈیموکریٹس کے ساتھ ساتھ ہمارے بہت سے ریپبلیکن کانگریس مین دوست ہیں جن میں سے راقم کے اوہائیو کے دوست کانگریس مین مائیک ٹرنر، پینسیلوینیا سے پاک پیک کے بورڈ ممبر ڈاکٹر عمر فاروق کے دوست کانگریس مین برائن فٹزپیٹرک، انڈیانا سے پاک پیک کے بورڈ ممبر ڈاکٹر فرخ ادہامی کے دوست کانگریس مین جم بینکس، پاک پیک پریذیڈنٹ ڈاکٹر جلیل خان کے دوست، جو ولسن اور مشی گن سے پاک پیک بورڈ ممبر اسد ملک کے دوست کانگریس مین برگمین اور کانگریس مین مولنار نمایاں ہیں۔ جم بینکس نے کاکس کا حصہ بننے کا فیصلہ کرلیا اور عمران خان، جم بینکس کے ساتھ پاک پیک کے بورڈ ممبر فرخ ادہامی کا شکریہ ادا کرنے خود چل کر آیا۔ پاک پیک اپنے ہر ایونٹ میں پاکستان امریکہ تعلقات کے لئے کام کرتی رہی ہے اور ہمارے صدر ڈاکٹر جلیل خان مبارکباد کے مستحق ہیں لیکن بہرحال “کاکس” کا سب سے زیادہ کریڈٹ طاہر جاوید کو ہی جاتا ہے۔
چند نام جو پردے کے پیچھے رہ کر کمال کرتے رہے ان میں مشی گن کے بڑے بزنس مین اشرف قاضی ہیں جو کہ امریکہ کے نائب صدر مائک پینس کے قریبی دوست ہیں اور عمران ٹرمپ ملاقات کے ساتھ ساتھ پندرہ کے قریب سینیٹرز اور کانگریس مین کو عمران خان کے استقبال کے لئے لیکر آئے، پھر ہمارے اوہائیو کے دوست جنید عنصر جو کہ پورے اوہائیو کے سینیٹرز اور کانگریس مین کے ناصرف دوست ہیں بلکہ سینیٹر شیرڈ براؤن کی صدارتی مہم انکے گھر سے شروع ہوئی۔پھر آتے ہیں میری لینڈ کے نمایاں انویسٹمنٹ بینکر حسنین اسلم جو میری لینڈ کے سیاستدانوں پر اثر رکھتے ہیں۔ مشی گن کے اسد ملک نے بھی اپنا اثر و رسوخ استعمال کیا جبکہ کیلفورنیا سے ڈاکٹر آصف جو کہ پچھلے سال الیکشن میں ایک ملین کے قریب ووٹ لے چُکے ہیں، اپنے دوست کانگریس مین اور سینیٹرز کو لیکر آئے۔ امریکہ میں پاکستان کے سفیر ڈاکٹر اسد مجید وہ زنجیر ہیں جس نے بہت سے بااثر پاکستانیوں کو باندھ دیا ہے۔ پی ٹی آئی کے مقامی سیاستدان بالخصوص سجاد برکی اور اسد شاہ کی قربانیوں پر ایک الگ کالم درکار ہوگا۔ ایسے وقت سے عمران کے ساتھ کھڑا ہونا جب لوگ اسکا مذاق اڑاتے تھے، قابل ستائش ہے۔
عمران خان کے جلسوں کے دنوں میں یہ عطا الّلہ عیسیٰ خیلوی کا یہ گانا بہت سنتے تھے، “جب آئے گا عمران”!!! اس وقت یہ خواب سا لگتا تھا لیکن آج جب بی بی سی کہتی ہے کہ عمران کا خطاب دو ارب سے زائد لوگوں نے سُنا، آج جب مودی سے سرسری سا ہاتھ ملانے والی فرسٹ لیڈی، ٹوئٹر پر عمران کی تعریفیں کرتے نہیں تھکتی، آج جب امریکہ کا صدر عمران کی اگلے الیکشن میں کیمپین چلانے کا برملا اظہار کرتا ہے، یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے، “بڑھی ہے اس ملک کی شان”!! پاکستان زندہ باد
کالم نگار: راؤ کامران علی، ایم ڈی
ہر بدھ وار کو کالم لکھا جاتا ہے۔ اگر پسند آئے تو شئیر کریں۔ مزید کالم پڑھنے کے لئے اس پیج Tez Hay Nok e Qalam کو like کریں شُکریہ-