یہ چھبیس جولائی 2013 کا روشن دن تھا، پارا چنار کی حسین وادی سورج کی تمازت سے کھل رہی تھی؛ بازار میں ہر طرف چہل پہل تھی، لوگ گھوم رہے تھے اشیائے خوردونوش خرید رہے تھے، بچے اٹھکیلیاں کر رہے تھے کہ اچانک قیامت صغرٰی برپا ہوگئی، اہل تشیع کی مساجد میں یکے بعد دیگرے دو بم دھماکے ہوئے اور ستاون لوگ موت کی آغوش میں چلے گئے جبکہ ایک سو سے زائد زخمی ہوئے۔اور یہ ظلم یہیں ختم نہیں ہوا؛ تیئس دسمبر 2015 میں اسی وادی میں تئیس لوگ، اکیس جنوری 2017 میں پچیس اور اکتیس مارچ 2017 میں چوبیس اہل تشیع بم دھماکوں میں ہلاک ہوئے جبکہ سینکڑوں ان دھماکوں میں معذور رہے۔ یاد رہے کہ یہ ایک ہی قصبے میں ایک ہی اقلیتی فرقے (اہل تشیع) کے خلاف دہشتگردی ہوئی ہے۔
اٹھائیس مئی 2010 کو لاہور میں ماڈل ٹاؤن اور گڑھی شاہو میں قادیانیوں کی دو عبادت گاہوں پر گولیاں برسانے کے بعد خود کش حملے کئے گئے۔ ستانوے افراد ہلاک اور ایک سو بیس سے زائد زخمی ہوئے۔
اکا دُکا قادیانیوں کے قتل تو عام سی بات ہے۔ابھی ہم اپنے کولمبس کے ڈاکٹر قمر مہدی کے پاکستان میں دردناک قتل کو نہیں بھولے تھے کہ تین روز قبل، شکاگو کے ڈاکٹر افتخار احمد کو ایک اور لوکل قادیانی ڈاکٹر کے ساتھ جائیداد کے لالچ میں اٹک میں قتل کردیا گیا۔
پاکستان میں ہندوؤں کی آبادی کا تناسب قیام پاکستان کے وقت بارہ فیصد تھا جبکہ آج دو فیصد سے بھی کم ہے۔ ہندوؤں کے اغوا، قتل، ریپ یا زبردستی مذہب کی تبدیلی معمول کی بات ہے۔ شرم آتی ہے یہ کہتے ہوئے کہ عید میلاد النبی کے موقع پر رحمت الالعالمین سے محبت کا اظہار کچھ لوگ سندھ میں شری کرشنا رام کے مندر کو توڑ کر تو کچھ قادیانیوں سے نفرت کا اظہار کرکے رہے۔ وہ نبی جنھوں نے اقلیتوں کو تحفظ دینے پر زور فرمایا، ان سے محبت کا حق کیسے ادا کیا گیا؟ نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان بننے کے وقت ہماری اقلیتیں آبادی کا تئیس فیصد تھیں جبکہ آج تین فیصد ہیں۔
یہی حال مسیحی برادری کا ہے۔ کوئٹہ میں چرچ پر بیہمانہ حملے کے بعد بیس دسمبر 2017 کو “ہمارے اپنوں کی حفاظت” سے اسی پیج پر کالم لکھا گیا جس میں چرچ کی بہترین سیکیورٹی پر زور دیا گیا۔ آج بھی دیکھ لیں، پاکستان میں کتنے چرچ محفوظ ہیں؟
نیوزی لینڈ میں ایک پاگل انسان نے پچاس نمازی موت کے گھاٹ اتار دئیے، مساجد کو مذبح خانہ بنا ڈالا؛ ستم بلائے ستم یہ کہ یہ ریکارڈنگ سوشل میڈیا پر چلا کر ہزاروں میل دور بیٹھے ہم جیسوں کے سینوں پر چھریاں چلاتا رہا۔ ہمارے کلیجے ایسے ہی چھلنی ہوئے جیسے پاراچنار کے مقتولین کے والدین کے ہوئے تھے؛ مائیں ایسے ہی تڑپیں جیسے قادیانیوں کی تڑپی تھیں؛ بہنوں نے ایسی ہی بے بسی محسوس کی جیسی ہندوؤں اور عیسائیوں کی بہنوں نے کی تھی۔ یہاں تک درد کا رشتہ ایک جیسا تھا، ڈر ایک جیسا تھا اور اندیشے ایک جیسے تھے۔ لیکن اسکے بعد کیا ہوا؟؟؟
اگلے روز نیوزی لینڈ کی مساجد میں کافر گورے ہاتھوں کی زنجیر بنا کر نمازیوں کے پیچھے کھڑے ہوگئے گویا کوئی انکی لاشوں سے گزر کر ہی مسلمانوں کو نقصان پہنچا سکتا ہے؛ کیا ہم انتیس مئی 2010 کو قادیانیوں کی عبادت گاہوں کے آگے انسانی زنجیر بنا کر کھڑے ہوئے کہ کوئی ہماری لاشوں پر سے گزر کر ہی ہمارے ہم وطنوں کو نقصان پہنچائے ؟ کیا ہم سُنیوں نے سوچا کہ گنتی کی تو امام بارگاہیں ہیں اگر ہر جمعہ کو دس سُنّی بھی پارا چنار کی ہر امام بارگاہ کا پہرہ دیں تو شاید ایک سُنّی کی باری دس سال میں ایک بار آئے۔ یہی بات پورے ملک کے گرجا گھروں اور مندروں پر لاگو ہوتی ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ پچاس مسلمانوں کے قتل کے بعد،نیوزی لینڈ کی وزیراعظم سر پر دوپٹہ لیکر دکھیوں کا غم بانٹنے آئی اور اس نے ایسے متاثرہ خواتین کو گلے سے لگایا کہ “جادو کی جپھی” عملی طور پر نظر آئی۔ کیا 2010 میں زرداری یا گیلانی نے متاثرہ قادیانیوں کو ایسی “جادو کی جپھی” دی یا 2013 سے 2017 تک ہر چند مہینوں کے بعد دہشتگردی کا نشانہ بننے والے پارا چنار والوں کے زخموں پر میاں نواز شریف نے مرہم رکھا؛ نہیں، بالکل نہیں کیونکہ ڈر تھا کہ ووٹ کٹ جائیں گے؛ انتہا پسند برا مان جائیں گے۔ یہ فرق ہوتا ہے لیڈر میں اور سیاستدان میں اور یہ فرق مذہب، ذات، پات سے بہت اوپر ہوتا ہے۔ مجھے پاراچنار کی ایک سادہ سی خاتون کا روتے ہوئے انٹرویو یاد ہے جس میں اس نے کہا تھا کہ “جنرل باجوہ کو کہیں کہ وہ یہاں آئیں تاکہ میں انھیں اپنے خاندان والوں کی لاشیں دکھاؤں!”
درد کا رشتہ سب سے مضبوط رشتہ ہے؛ ہمیں پتا چل رہا ہے کہ دیار غیر میں اقلیتوں کو انکی مساجد میں بھون دینا کیسا لگتا ہے۔ درد کا رشتہ مذہب اور فرقے کی حدود کو مٹا کر رکھ دیتا ہے؛ سُنّی کے بھائی کو اپنے بھائی کی لاش پر شیعہ کے بھائی کا دکھ محسوس ہوتا ہے۔ جن انسانی ہاتھوں کی زنجیروں کو، جن جادو کی جپھیوں کو دنیا نیوزی لینڈ میں دیکھ رہی ہے، وقت آگیا ہے کہ اب وہ پاکستان میں نظر آئیں۔ اور ہم خود سے وعدہ کریں کہ اب کسی اقلیت پر کوئی ظلم برداشت نہیں کریں گے اور انکے سامنے ڈھال بن جائیں گے۔ اسی میں ہماری بقا ہے اور ہماری نسلوں کا سانجھا مستقبل ہے۔
کالم نگار: راؤ کامران علی، ایم ڈی
ہر بدھ وار کو کالم لکھا جاتا ہے۔ اگر پسند آئے تو شئیر کریں۔ مزید کالم پڑھنے کے لئے اس پیج Tez Hay Nok e Qalam کو like کریں شُکریہ-