الیزبتھ روس، یونیورسٹی آف شکاگو کی ماہر نفسیات تھی اور دکھ کی پانچ اسٹیجوں کی محقق تھی۔ اس نے مرتے ہوئے لوگوں پر تحقیق کی تو پتا چلا کہ مرنے والے یا انکے رشتہ دار پانچ اسٹیجوں سے گزرتے ہیں؛ پہلا ہے ڈینائل (denial) یعنی اگر کسی خاتون کا شوہر فوت ہوجائے تو وہ چلا کر کہہ رہی ہو، “تم مجھے چھوڑ کر نہیں جاسکتے”؛ دوسرا ہے ناراضگی (anger) یعنی وہ کہے ،”مجھ سے میرا شوہر چھین کر ظلم کیا خدا نے” تیسرا ہے بارگیننگ (bargaining) یعنی “اے خدا مجھے اٹھا لے اور میرا شوہر واپس کردے”! چوتھا ہے ڈپریشن (depression) یعنی چُپ چاپ، رہنا دکھ میں رہنا اور پھر آتا ہے، ہتھیار ڈال دینا (acceptance) یعنی جو الّلہ کا حکم”!!!
لگ بھگ دو سو دن پہلے انڈیا نے کشمیریوں پر ظلم کی نئی تاریخ رقم کردی، ان سے خود مختاری چھین لی؛ پوری پاکستانی قوم دنیا میں ہر جگہ جذباتی ہوگئی۔فیس بک اور تویٹر پر آگ لگ گئی؛ اپنے ہی ملک میں انڈیا کے خلاف جلوسوں میں ہلڑبازی۔ امریکہ کے مختکف شہروں میں ریلیوں کے لئے چندہ اکھٹا ہورہا ہے اور دھواں دھار تقریریں!!!! اور پھر کیا ہوا۔ سب کے سب “باتوں کے شیر”، الیزبتھ روس کی پانچ اسٹیجوں سے گزر کر سکون سے بیٹھ گئے گویا مسئلہ کشمیر حل کروا لیا ہو۔ حتی کہ جو محض فیس بک پر ہی شئیر اور ٹیگ کرکے خود کو سوشل میڈیا جہاد کے “میجر عزیز بھٹی” سمجھ بیٹھے تھے وہ بھی چین سے بیٹھ گئے! امریکہ میں ایسے لوگ جن کے پردادا کشمیر سے تھے اور خود کبھی کشمیر کی شکل نہیں دیکھی لیکن “کشمیری” بن کر شور شرابہ کرتے رہے، چند “بڑوں” کی نظروں میں نمایاں ہوتے رہے، اب سکون سے آرام فرما رہے ہیں۔ کیا ایسے مسئلے حل ہوتے ہیں؟ کیا ہماری قوم جذباتی ڈرامہ بازی سے عقل اور عمل کی طرف نہیں جاسکتی۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ
مسئلہ کشمیر کس طرح حل ہوسکتا ہے؟
۱- پاکستان اتنا مضبوط اور طاقتور ہو کہ حملہ کرکے کشمیر آزاد کروا لے۔ گو کہ سوشل میڈیا کا “سپیشل سروسز گروپ” راجہ داہر، لڑکی کی فریاد اور محمد بن قاسم کی تلوار کی بڑکیں گرم بستر پر بیٹھ کر مارتا رہتا ہے اور اسکا خیال ہے کہ پاکستانی فوجی جوانوں کی جانیں اتنی ارزاں ہیں کہ انکے جذبات پر ٹھنڈ ڈالنے کے لئے پچاس ساٹھ ہزار شہید بھی ہوجائیں تو کوئی بڑی بات نہیں؛ گویا وہ نہ کسی کے بیٹے ہیں نہ باپ اور نہ شوہر۔ وہ طبقہ بھی “ہمارے ٹیکس پر پلنے والی فوج” کو لڑوانا چاہتا ہے جس کی پچھلی تین پشتوں میں سے کسی نے ٹیکس نہیں دیا۔
دوسرا طریقہ ہے دعا کے ساتھ ساتھ دنیا میں طاقت کے مراکز میں اپنی لابنگ کی جائے اور کشمیر کے حق میں رائے عامہ بڑھائی جائے۔ جسے ہم امریکہ میں یہودی لابی کہتے ہیں وہ (AIPAC)، American Israel Public Affair Committee ہے اور وہ اسرائیل کے قیام کے محض تین سال بعد امریکہ میں 1951 میں قائم کی گئی؛ یہ ہوتا ہے ویژن اور حب الوطنی! پاکستانی امریکیوں نے چند سال پہلے AIPAC کی طرح (PAKPAC) Pakistani American Political Action Committee کی بنیاد رکھی اور جذباتی بیان بازی کی بجائے امریکی کانگریس کے ساتھ اتنا مضبوط بندھن باندھا کہ کشمیر کی تاریخ میں پہلی بار ایک ریپبلیکن کانگریس مین جم بینکس اور ایک ڈیموکریٹ کانگریس وومین سوسن وائلڈ نے مل کر باقی کانگریس کو خط لکھا کہ کشمیر کے لوگوں پر ظلم بند کرواؤ۔ پاک پیک کے پچاس سے زائد ممبران پورے امریکہ سے واشنگٹن ڈی سی میں اکھٹے ہوئے اور سینتیس کانگریس مین کو اس خط پر دستخط پر آمادہ کیا (خط کی تصاویر کالم کے ساتھ اٹیچ ہیں) اور آج جب سب چیخ چلا کر سکون سے بیٹھے ہیں، پاک پیک جنرل برگ مین سے لیکر کانگریس وومین ڈیبی ڈنگل تک سے ہفتہ وار مذاکرات کررہی ہے، ان کے لئے فنڈ ریزنگ کررہی ہے اور کانگریس وومین جیاپال کے بل کو کامیاب بنا رہی ہے (بل کی تصویر اٹیچ ہے) جو کہ کشمیر کے لوگوں پر ظلم روکنے کے لئے ہے۔ ایک انڈین ہندو کانگریس وومین پر میلا جیاپال ان لاکھوں “ایمان والوں” سے بہتر ہے جو رو پیٹ کر چُپ ہوگئے اور یہ خاتون پورے انڈیا کے دباؤ کے باوجود انسانی حقوق کی پامالی کے خلاف ڈٹی ہوئی ہے۔ یہ ہوتا ہے وقتی جذبات اور مستقل مزاج اصولوں میں فرق۔ طاقت کے کھلاڑی “دکھ کی پانچ اسٹیجوں” سے مکمل طور پر واقف ہیں اور پہلے “چکھتے” ہیں پھر “نگلتے” ہیں! کشمیر میں پانچویں اسٹیج دو مہینے میں گزر گئیں اور یہ حوصلہ افزا نتیجہ “چکھ” کر پورے انڈیا کے مسلمانوں کو “نگلنے” کی طرف قدم بڑھا دیا! وہاں بھی شُکر ہے کہ پوری انڈین کمیونٹی مزاحمت کررہی ہیں ورنہ ہمارے جذباتی شاہین تو رو دھو کر بیٹھ چکے ہوتے۔
دنیا میں وہی قومیں ترقی کرتی ہیں جو زلزلوں اور طوفانوں کو آنے سے پہلے سونگھ لیتی ہیں اور بچاؤ کے لئے تیار ہوتی ہیں ورنہ جب خواب خرگوش کے مزے لوٹتی قوم پر یکدم طوفان آتا ہے تو اسکے اوسان خطا ہوجاتے ہیں۔ وقت ہے کہ سیاسی طور پر دنیا کے اہم مراکز میں طاقتور ہوا جائے! اگر آپ امریکی شہری یا گرین کارڈ ہولڈر ہیں تو روز کا صرف ایک ڈالر چندہ ایک گلے میں ڈالیں اور سال کے بعد ساری رقم پاک پیک pakpacusa dot org پر بھیجیں! بلکہ اپنے بچوں سے ڈلوائیں تاکہ ان میں سیاسی سوجھ بوجھ اور شوق پیدا ہو۔مزید برآں آپ محض سالانہ ایک سو ڈالر میں ممبر بن سکتے ہیں۔ ہم آج تیار ہوں گے تو کل کے طوفان کا مقابلہ کرسکیں گے۔ جذبات قیمتی ہیں اگر ان کے مطابق عمل کیا جائے! تو آئیں پھر مل کر عمل کریں؛ اور نعروں سے نہیں عمل سے دشمن کا مقابلہ کریں
کالم نگار: راؤ کامران علی، ایم ڈی
ہر بدھ وار کو کالم لکھا جاتا ہے۔ اگر پسند آئے تو شئیر کریں۔ مزید کالم پڑھنے کے لئے اس پیج Tez Hay Nok e Qalam کو like کریں شُکریہ-