یہ انگلینڈ کا ایک خوبصورت شاپنگ سنٹر ہے؛ پاکستانی کرکٹ ٹیم کا کپتان اپنے چند سالہ بچے کو گود میں لیکر جارہا ہے؛ ظاہر سی بات ہے کہ بیوی بھی آس پاس ہوگی۔ ایک پاکستانی لڑکا جو کہ لہجے سے برطانیہ کی “جم پل” لگ رہا تھا، سرفراز کے پاس آیا۔ سرفراز نے بڑی تمیز سے اسکی بات سُنی اور اس لڑکے نے اپنی طرف سے بڑا “مزاقیہ” بنتے ہوئے ارشاد فرمایا، “ بڑے کھا کھا کر ماوٹے ہوگئے ہو، سور جیسے لگ رئیے او” اور سرفراز شریف آدمی، خون کے گھونٹ پیتا ہوا آگے بڑھ گیا۔ حالانکہ اگر فیس بک پر ابھی “ملاکھڑا” کروا دیں کہ سور جیسے جسم کا سرفراز ہے یا سور جیسی شکل کا وہ لڑکا تو 99.99 فیصد لوگ یہی ووٹ دیں گے کہ وہ لڑکا سور جیسی شکل کا ہے۔
دوسرا سین آج سے ایک سال قبل کا ہے۔ ایسا ہی ایک منہ پھٹ انسان دبئی ائرپورٹ پر “آزادی اظہار” کا استعمال کرتا ہوا، پاکستانی سیاستدانوں کی ماں بہن کرتا ہوا نبیل گبول کو گالیاں دے رہا تھا؛ وہاں سے کراچی اسی جہاز میں نبیل گبول کے ساتھ پہنچا اور کراچی ائرپورٹ پر بھی ایسا ہی “آزادی اظہار” کا استعمال کیا اور گبول کی ایک چپیڑ سے دس فٹ دور جاگرا۔ اس وقت گبول کا تھپڑ ہم دیکھنے اور پڑھنے والوں کو اچھا نہیں لگا لیکن جب اس لونڈے نے سرفراز کے ساتھ بدتمیزی کی تو سمجھ میں آیا کہ نبیل گبول نے ٹھیک جواب دیا تھا۔ شاید کچھ لوگوں کے لئے الفاظ صحیح کام نہیں کرتے!
تیسرا سین ایک جواں سال لیڈی ڈاکٹر کا ہے جو ایک چھوٹے سے قصبے میں اپنی ڈیوٹی سرانجام دے رہی ہے اور چند سڑک چھاپ لڑکے جنھیں بات کرنے کی بھی تمیز نہیں، اپنے موبائل سے اسکی ویڈیو بنا رہے تھے اور بے تکے الزامات لگا رہے تھے۔ پہلے میٹرک پاس لوگ، ایک آدھ خبر اخبار کو بھیج کر موٹر سائیکل پر “صحافی” کی نمبر پلیٹ لگا کر بدمعاشی کرتے تھے؛ اب خیر سے موبائل فون کے کیمرے نے پانچویں فیل کو بھی “حامد میر” بنا رکھا ہے۔ یہ بھی نہ سوچا کہ اگر وہ لیڈی ڈاکٹر تنگ آکر قصبہ چھوڑ جائے تو انکی خواتین دائیوں کے تجربات کی بھینٹ چڑھ جائیں۔
دنیا میں آزادی اظہار کا تصور پانچویں اور چھٹی صدی میں باقاعدہ وجود میں آیا جب روم میں کونسل کو رائے دینے کی آزادی دی گئی جبکہ اسکو باقاعدہ آئین میں جگہ (England Bill of rights 1689)سترھویں صدی میں انگلینڈ میں دی گئی۔ آج کی دنیا میں سوشل میڈیا نے “آزادی اظہار” کو بندر کا استرا بنا دیا ہے۔ منہ پھٹ لوگ کسی کے بارے میں کچھ بھی کہہ سکتے ہیں۔ پہلے لوگ بُرے لوگوں سے کترا کر محلہ چھوڑ جاتے تھے لیکن اب ان سے سوشل میڈیا کے “آزادی اظہار” کے باعث بچنا مشکل ہے۔ بلیک میلرز کے وارے نیارے ہوگئے ہیں۔ حالانکہ “آزادی اظہار” کی باقاعدہ قانونی حدود ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ایسے بدزبانی یا الزام تراشی کی کیس کے فیصلے امریکہ تک میں دس دس سال میں ہوتے ہیں؛ گویا کہ کسی کے الفاظ یا الزام تراشی سے کسی کو نقصان پہنچے تو عدالت الزام لگانے والے کو جرمانہ بھرنے کا حکم دیتی ہے۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ الزام درازی فارغ لوگوں کا مشغلہ ہے الزام لگانے والا عموماً مفلس ہوتا ہے کیونکہ وہ چار پیسے ہتھیانے کے چکر میں الزام لگاتا ہے تو کیس ہار کر بھی عدالت اس سے کیا نکلوا لے گی؟ گنجی دھوئے گی کیا، نچوڑے گی کیا؟
آزادی اظہار عرف عام “منہ پھٹ ہونے” نے ناکام لوگوں کے وارے نیارے کردئیے ہیں؛ مثلاً آپ ڈاکٹر نہیں بن سکتے تو ڈاکٹروں کو ڈاکو لکھ کر یا ڈاکو کہہ کر گھر بیٹھے “سوشل جسٹس” کے جج بن جاؤ؛ آپ نے کبھی کسی تنظیم کی بھلائی کے لیے ٹکے کا کام نہیں کیا، کبھی آنا تک نہیں دیا، لیکن آپ کام کرنے والوں پر الزام لگا دو اور دو چار سو میں کوئی سستا سا وکیل کرکے کیس بھی کردو اور مسیحا بن جاؤ؛ یا پھر آپ بھری محفل میں ورکرز یا لیڈرز پر الزامات لگانے شروع کردو اور کوئی پوچھے کہ میاں تم تنظیم کے مامے/مامی لگتے ہو کہ کبھی کچھ کیا نہیں اور ڈرامے لیڈری کے، تو بغلیں جھانکو!
آزادی اظہار کے نام پر دوسروں کی زندگی کو اجیرن بنا دینے والوں کا محاسبہ ضروری ہے اور یہ بہت آسان ہے؛ انکی زبان بندی کے لئے ایک سوال کافی ہے؛ ان سے پوچھا جائے کہ انھوں نے پوری زندگی، کمیونٹی، تنظیم، انسانیت یا گلی محلے کے لئے آج تک کیا مثبت کام کیا؟ کیا کبھی کوئی سماجی یا سیاسی ڈیوٹی سرانجام دی؟ کیا کسی کی مدد کی؟ کیا کسی غریب کی زندگی بنانے میں، اسکا سہارا بننے میں کوئی کردار ادا کیا؟ یقین جانیے، وہ سیدھا جواب نہیں دیں گے، کیونکہ جواب ہوگا ہی نہیں۔ آئیں بائیں شائیں کریں گے، جذباتی ڈرامے کریں گے، آواز مزید اونچی کریں گے، اور ہوسکا تو آپ سے لڑنے کی کوشش کریں گے لیکن آپ پرسکون رہیں اور محض اپنا سوال تمیز سے دہرائیں اور دوسروں کو بھی یہی تلقین کریں؛ جب چند لوگ ان سے یہی سوال کریں گے تو یہ ایسے غائب ہو جائیں گے جیسے گدھے کے سر سے سینگ؛ چاہے وہ سرفراز کو سور کہنے والا ہو یا لیڈی ڈاکٹر سے بدتمیزی کرنے والا؛ چاہے وہ کسی تنظیم یا تحریک میں نفرت کا بیج بونے والا ہو یا گلی کا ٹُچا؛ علاج سب کا ایک ہی ہے اور یہ طریقہ غیر متشدد ہی نہیں بلکہ یہ پکا اور دیرپا علاج ہے!
کالم نگار: راؤ کامران علی، ایم ڈی
ہر بدھ وار کو کالم لکھا جاتا ہے۔ اگر پسند آئے تو شئیر کریں۔ مزید کالم پڑھنے کے لئے اس پیج Tez Hay Nok e Qalam کو like کریں شُکریہ-