پینتیس سے چالیس سال تک کی عمر کے قاری یہ جانتے ہونگے کہ انکا پہلا عشق خط و کتابت سے شروع ہوا ہوگا۔ چاہے ہمسائے کی لڑکی گھر والوں سے چھپ کر چھت پر خط دینے یا لینے آئے یا سینکڑوں میل دو پھوپھو کی بیٹی کو لکھے گئے عشقیہ خطوط، سب کے ساتھ ٹائمنگ کا پرابلم ہوتا تھا۔ سانجھی دیوار کی ہمسائی تک کو دیکھنا ہوتا تھا کہ کب باپ بھائی گھر پر نہیں اور اماں قیلولہ کررہی ہے تو دور شہر کے عشق کا تو کہنا ہی کیا۔ چودھویں رات کو جذبات اور بدن میں اٹھلاتے مدوجزر میں محبوب کو سوچ کر جو خط لکھے جاتے اور اگلے دن پوسٹ کئے جاتے وہ جب تک محبوب تک پہنچتے؛ یا تو محبوبہ کی لوڈ شیڈنگ میں ہانڈی روٹی کرتے مت ماری ہوئی ہوتی یا پھر محبوب کا افسر اسکی کام پر کلاس لیتے ہوئے اسکے عشق کے آبی بخارات اڑا رہا ہوتا تو اگلی چودھویں تک راوی چین ہی چین لکھ دیتا۔پہلے ٹیکسٹ پھر نائٹ پیکیج اسکے بعد فیس بک اور آج وٹس ایپ نے یہ جذبات اور فعل کا فاصلہ ختم کردیا ہے۔ آج کسی بھی رات میں بات مولانا فضل الرحمان کے دھرنے سے شروع ہوکر بھی عشق تک پہنچ جاتی ہے اور بھڑکتے جذبات کی تسکین فوری تصاویر یا ویڈیوز کے تبادلے کے ساتھ کی جاتی ہے۔ اگر آپ نے یا آپکے کسی پیارے نے ایک بھئ ایسی تصویر بھیجی یا ریسیو کی ہے تو وہ “ٹیکنیکلی” رابی پیرزادہ ہے؛ فرق صرف قسمت، بدقسمتی، احتیاط بد احتیاطی کا ہے۔ اگر رابی نے گناہ کیا ہے تو میں نے اور آپ نے بھی کیا ہے۔ اگر قانون توڑا ہے (جو کہ غالباً نہیں توڑا) تو میں نے اور آپ نے بھی وہ توڑا ہے۔ چونکہ غلطی انسان سے ہوئی ہے تو دیگر انسان بھی اپنا گریبان جھانک سکتے ہیں۔ اس پورے کیس میں رابی صرف اس لئے مجرم بنتی ہے اگر اس نے یہ ویڈیوز خود ریلیز کی ہیں اور اسکی معافی اور شوبز چھوڑنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس نے نہیں کی۔
اب اہم بات یہ ہے کہ اسکا تدارک کیسے ممکن ہے؟ آسان جواب بہت سے قارئین دے سکتے ہیں کہ اسلامی اصولوں پر عمل کریں جو کہ یقیناً ٹھیک حل ہے لیکن بدنام زمانہ ویب سائٹس پر مولوی حضرات اور اسلام پر عمل پیرا لوگوں کی بھی ایسی ویڈیوز موجود ہیں اور یہ کوئی طعنے کی بات نہیں؛ وہ بھی انسان ہیں۔ اگر ایک اسلامی زندگی پر پیرا بالغ مرد یا عورت سے ایسی غلطی ہوتی ہے تو وہ بھی ہمارے جیسے جذبات سے لبریز انسان ہیں۔ مسئلہ صرف جب ہوتا ہے جب مولوی صاحب کسی نابالغ سے تعلق قائم کریں۔ شاید آپکو علم نہ ہو لیکن کسی بھی بالغ کا اٹھارہ سال سے کم عمر کے لڑکے یا لڑکی سے اسکی مرضی کے ساتھ بھی جنسی تعلق “ریپ” کے زمرے میں آتا ہے۔
زمینی اور جذباتی حقائق تو یہ ہیں تصاویر اور ویڈیوز کا یہ سلسلہ اب رکنے والا نہیں۔ رابی جیسے واقعات سے عاشق خواتین و حضرات چند روز سہم کر پھر اپنے جذبات کی رو میں بہہ جاتے ہیں۔ اصل مسئلہ احتیاط کا ہے۔بہتر ہے ایسی تصاویر یا ویڈیوز نہ بنائی جائیں۔ اگر کچھ ایسا ہو بھی تو چہرہ ضرور ڈھانپا ہو۔ جب ایک انسان ایسی ویڈیوز بناتا ہے تو پہلا رسک اسکے اپنے موبائل کا ہوتا ہے اور دوسرا ریسیو کرنے والے کے موبائل کا اور تیسرا رسک ویڈیو کے بھیجنے کے طریقے کا۔ اگر ویڈیو بڑی ہو اور بھیجنے کے لئے “باکس” استعمال کیا جائے تو یہ ایک اور رسک ہے۔ آپ میں سے ہر ایک نے کم از کم ایک بار غلطی سے کسی اور کو بھیجی ای میل ریسیو کی ہوگی اور غلطی سے کسی انجان کو ای میل یا ٹیکسٹ بھی بھیج بھی چکے ہوں گے؛ یہ بھی بد احتیاطی کی بڑی وجہ ہے۔ ہیجان خیز لمحات میں کانپتے ہاتھوں کے ساتھ ایسی غلطیوں کے امکانات کئی سو فیصد زیادہ ہوتے ہیں۔ چہرے کے بغیر جسم سے کسی کی شناخت تقریباً ناممکن ہے۔ اور اگر آپکے نمبر یا ای میل کے باعث کسی کو اندازہ ہوجائے کہ یہ آپکے جسم کی تصویر ہے تو صاف مُکر جائیں اور سخت جواب دیں۔ چاہے زمین آسمان ایک ہوجائیں، آپ نے اقرار نہیں کرنا ہے کہ یہ آپکی ویڈیو یا پکچر ہے؛ ایک کالم نگار کا ایسے جھوٹ سکھانا معیوب ہے؛ لیکن ایسے جھوٹ جن سے کسی کی زندگی اجڑنے سے بچ جائے، ہزاروں سچ سے بہتر ہے۔ جب بھی ہم ایسی لیک ہونے والی ویڈیوز کا سوچتے ہیں تو “چسکے” کے لئے دوسری لڑکیاں تصور کرتے ہیں۔ فرض کریں، آپکا بہنوئی دو سال سے سعودیہ یا چھ مہینے سے فوج سے نہیں آیا اور جذبات کی رو میں آپکی بہن سے ایسی کچھ فرمائش کرتا ہے اور وہ شریف لڑکی نہ چاہتے بھی سہاگ کی خاطر ایسا کچھ بھیج دیتی ہے اور وہ لیک ہوجاتا ہے تو آپ کیسا محسوس کریں گے؟ انٹرنیٹ کے باعث odds اتنے زیادہ ہوگئے ہیں ایسے معاملات کے، کہ کسی کو فرشتہ یا شیطان لیبل کرنے سے کام نہیں چلے گا۔ انسان کو انسان سمجھیں، اسکی غلطیوں کا اپنی غلطیوں سے موازنہ کریں اور اگر کوئی زیادتی یا زبردستی یا غیر قانونی حرکت نہیں ہورہی تو دو لوگوں کا معاملہ خدا پر چھوڑ دیں۔ الّلہ آپکے ساتھ بھی رحم کا معاملہ کرے گا!
کالم نگار: راؤ کامران علی، ایم ڈی
ہر بدھ وار کو کالم لکھا جاتا ہے۔ اگر پسند آئے تو شئیر کریں۔ مزید کالم پڑھنے کے لئے اس پیج Tez Hay Nok e Qalam کو like کریں شُکریہ-