روحی بانو اور شیزوفرینیا

کیا آپ نے اپنے آس پاس دیکھا ہے کہ کوئی درمیانی عمر کا آدمی یا عورت، بالخصوص شادی شدہ عورت ایک دم پانچ وقت کی نمازی بن جائے؛ اٹھتے بیٹھتے وظیفے پڑھنے لگے؛ نفلی عبادات کے انبار لگ جائیں؛ میلادیں ہو رہی ہوں وظیفے چل رہے ہوں؛ کسی “پہنچے ہوئے” بزرگ کی بیعت بھی کرلی جائے؟ بطور مسلمان یہ یقیناً خوش آئند بات ہے، ایسے گھروں کو نیک اور بابرکت قرار دیا جاتا ہے؛ محلے دار اور رشتہ دار دعا اور بعض اوقات تعویز کے لئے بھی آجاتے ہیں۔ لیکن یہاں تھوڑی دیر کو رُکتے ہیں!!!!

نماز کیا ہے؟ ایک ٹریننگ ، ایک پانچ وقت کی یاد دہانی کہ کسی کو اس زندگی کی ذمہ دار یوں کا رب کو جواب دینا ہے اور لوگوں کے حقوق ادا کرنے ہیں اسی لئے باجماعت نماز کا ستر گنا ثواب ہے۔ روزہ کیا ہے؟ ایک ایسی کیفیت جہاں سب کھانا پینا سامنے پڑا ہو وہاں بھی کنٹرول کرنا ہے اور مفلسوں کی بھوک کو محسوس کرتے ہوئے اسی مہینے زکٰات ادا کرکے حقوق العباد ادا کرنے ہیں؛ یہی عالم حج اور جہاد کا ہے!!!! پورا دین چیخ چیخ کر ہر عمل میں بندوں کے حقوق کو حقوق الّلہ کو ترجیح دے رہا ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جن مرد و حضرات کا اوپر ذکر کیا گیا ہے، ان سب بے تحاشہ نفلی عبادتوں کے ساتھ کیا اپنے حقوق ٹھیک طریقے سے ادا کررہے ہیں؟ کیا اپنے بچوں کو بھرپور توجہ دے رہے ہیں؟ کیا جنت اور آخرت کا ورد کرنے والی خواتین اپنے شوہر کا حق ادا کررہی ہیں بالخصوص صحت مندانہ ازدواجی تعلقات؟ اور یہی حال مرد حظرات کا ہے! “سائیں” بننے سے پہلے ٹیسٹوسٹیرون لیول چیک کروانے میں کوئی حرج نہیں، علاج موجود ہے۔ اگر سب کچھ نارمل ہے اور پھر بھی نماز روزہ نوافل میلادیں، عرس، مرثیے چل رہے ہیں تو ان سب مرد و حضرات پر لاکھوں سلام اور اگر ایسا نہیں ہے تو پہلا خیال آپکے ذہن میں آنا چاہیے کہ مذکورہ بالا مرد، خواتین کسی نفسیاتی مسئلے کا شکار ہوکر ان عبادات میں پناہ لے رہے ہیں اور ان نفسیاتی مسائل میں شیزوفرینیا پہلے نمبر پر ہے۔

روحی بانو شیزوفرینیا کا شکار ان دنوں سے ہے جن دنوں اشفاق احمد اور بانو قدسیہ اسے کہتے تھے کہ “کہاں کھو جاتی ہو؟” ،”الگ تھلگ کیوں ہو، میل ملاپ کیوں نہیں کرتی؟” اس وقت بھی تھی جب “زرد گلاب” میں کام کیا تھا۔ شیزوفرینیا مختلف شدت کے ساتھ اثر انداز ہوتا ہے؛ کچھ کو جن، موکل، بزرگ، آئن اسٹائن نظر آتے ہیں اور دورے پڑتے ہیں، ان علامات کو پازیٹو یعنی “موجود علامات”کہتے ہیں جبکہ جو الگ تھلگ ہوں، دنیا سے کٹ جائیں انھیں نیگٹو یعنی “غائب علامات” کہتے ہیں۔ ہر دوسرے مہینے جو آپ پڑھتے ہیں ماں نے بچے پانی کی ٹینکی میں ڈبو دئیے یا چھری سے ہلاک کردیا؛ وہ دراصل ماں کو دورے کی حالت میں بچے نہیں کچھ اور نظر آرہے ہوتے ہیں۔ شیزوفرینیا کے مریض کوعموماً یہ پازیٹو علامات یعنی سائیکوسس میں ہوتا ہے۔

شیزوفرینیا کی وجوہات جینیاتی اور پیدائشی بھی ہوسکتی ہیں یعنی قریبی فیملی میں سے کسی کو ہو جبکہ حالات اور ماحول کی گھٹن بھی ایسا کرسکتی ہے۔ روحی بانو کے والد مبینہ طور پر استاد الّلہ رکھا تھے جو کہ 2000 میں اسی سال کی عمر میں ہارٹ اٹیک سے فوت ہوئے لیکن انکی والدہ کی میڈیکل یا سوشل ہسٹری کسی کو نہیں پتا۔ روحی بانو بچپن بہت پیچیدگیوں سے گزرا لیکن اسکے ساتھ کیا یہ عجیب بات نہیں ہے کہ اس نے ماسٹرز بھی نفسیات میں ہی کیا؟ گمان غالب ہے کہ بچپن سے ہی باپ کا اسے قبول نہ کرنا، والدہ کا گمنام ہونا اس کے دماغ پر اثر کیا اور 2005 میں بیٹے کے قتل نے رہی سہی کسر پوری کردی۔ عام خواتین جنھیں آپ شیزوفرینیا کا مریض دیکھیں ان میں ایک بات بہت کامن ہوگی؛ انکا شوہر یا تو بہت متشدد اور بات بات پر نقص نکالنے والا ہوگا یا پھر شدید جنسی مسائل کا شکار ہوگا اور علاج یا مدد حاصل کرنے کو انا کی توہین سمجھتا ہوگا۔ بعض کیسز میں باپ بھی متشدد اور ایذارسائی کا باعث ہوسکتا ہے۔ عورت دماغی دباؤ کا شکار ہوکر یا پھر اپنے جذبات کو مارتی ہوئی نماز روزہ میں پناہ ڈھونڈتی، دور نکل جاتی ہے۔ مردوں میں شیزوفرینیا چرس اور ہیروئن کے استعمال سے زیادہ ہوتا ہے جبکہ بچپن سے ذہنی دباؤ بھی مردوں میں یہ مرض کرسکتا ہے۔

اس مرض کا علاج ممکن ہے۔ دوائیاں ہیں، پچاس فیصد مریض دوائی سے دور بھاگتے ہیں تو ایسے انجیکشنز ہیں جو زبردستی بھی لگا دیں تو مہینہ مہینہ کام کرتے ہیں۔ سب سے بڑھ کر ہے ایسے مریضوں کو ذہنی سکون دینا، انھیں سمجھنا۔
ہمارے ہاں مرد اور عورت کی جنسی تعلیم کو شرمناک سمجھا جاتا ہے اور یہ شرم دھیرے دھیرے دیمک کی طرح آپکا پیارا کھا جاتی ہے۔ وہ زمانے گزر گئے جب چار بابے گلی کی نکڑ پر بیٹھ کر اپنی جوانی کے “ٹارزن” قصے سُنا کر نوعمروں کو ویسے ہی جنسی احساس کمتری کا شکار کردیتے تھے؛ اب ان مسائل کی تعلیم، اسکا علاج اور متبادل موجود ہیں۔ اسی طرح اسکی تعلیم بھی ضروری ہے کہ متشدد رشتے سے طلاق بہتر ہے، دو وقت کی روٹی کی قیمت ذہنی بربادی نہیں۔ اور بیماری کے وقت پر علاج کے لئے ایک اہم بات یہ ہے کہ جب اچھا وقت ہو تو برے وقت کے لئے کچھ پس انداز کریں، کچھ انویسٹ کریں؛ روحی بانو سے لیکر ببوبرال؛ مستانہ سے لیکر خالد سلیم موٹا؛ “زکوٹا جن” سے لیکر “بل بٹوری”، علاج کی بھیک مانگتے دنیا سے گزر گئے۔ آج آپ حسن نثار اور مستنصر حسین تارڑ کے رونے دھونے سے بھرپور کالم پڑھ لیں حالانکہ انکے سامنے ہی وہ روحی بانو رُلتی پھری۔ہم اپنا اثاثہ خود ہوتے ہیں؛ سچی بات تو یہ ہے کہ نہ تو فنکار ملک کا اثاثہ ہوتا ہے اور نہ کلرک ؛ یہ ذمہ داری خود ہی نبھانی ہے، خود ہی اٹھانی ہے-

‏‎کالم نگار: راؤ کامران علی، ایم ڈی
ہر بدھ وار کو کالم لکھا جاتا ہے۔ اگر پسند آئے تو شئیر کریں۔ مزید کالم پڑھنے کے لئے اس پیج Tez Hay Nok e Qalam کو like کریں شُکریہ-

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *