ساہیوال کا سانحہ اور پولیس گردی

میو ہسپتال میں ہاؤس جاب کے دنوں میں ایک دوست کے ساتھ ایک پنچائت میں جانے کا اتفاق ہوا۔ دوست کا تعلق بااثر خاندان سے تھا اور اسکا کزن ایک لڑکی کو بھگا کر لے گیا تھا۔ لڑکے والوں کا کہنا تھا کہ دونوں مرضی سے گئے ہیں جبکہ لڑکی والوں کا خیال تھا کہ اسے اغوا کیا گیا ہے۔ مجھے لگتا تھا کہ خون خرابہ ہوگا۔ بہرحال انکار نہ کرسکا۔ لیکن وہاں ماحول کچھ اور تھا۔ لڑکے والے تن کر بیٹھے تھے۔ میلے کچیلے کپڑوں میں ایک بوڑھا آدمی اسکی بوڑھی بیوی اور ایک بارہ تیرہ سالہ لڑکا ڈرے سہمے بیٹھے تھے۔ بوڑھی ماں نے کپکپاتی ہوئی آواز میں کہا “اونوُ ماریو نہ؛ ورت کے واپس کردیو” (اسے جان سے مت مارنا، استعمال کرکے واپس کردینا)۔ یہ فقرے سن کر میری ریڑھ کی ہڈی میں سنسناہٹ دوڑ گئی۔ ایک ڈر اور خوف پورے جسم پر تھوڑی دیر کے لئے چھا گیا۔ انھیں نہ انصاف چاہئیے نہ یہ شکایت کہ زیادتی ہوئی ہے؛ بس جان کی امان چاہئے تھی۔ “ورت” کر واپس کرنا؛ بے بسی اور کمزوری کے اظہار کی انتہا تھی کہ اپنی عزت طاقتور کی صوابدید پر اسکے پاؤں میں رکھ دی۔ ماں کی زبان سے نکلے یہ الفاظ ہر اہل دل کو شرمندہ کر گئے۔ بالآخر لڑکی زندہ سلامت واپس آگئی اور پتا چلا کہ مرضی سے گئی تھی۔

دو دن قبل؛ ساہیوال میں پولیس گردی کے شکار ذیشان، کی بوڑھی لیکن انتہائی حوصلہ مند، مدلل اور منطقی گفتگو کرنے والی ماں کو دیکھ کر اس غریب ماں کی یاد آگئی۔ حامد میر کے عثمان بزدار کو تھپڑ مارنے سے لیکر وسیم بادامی کے جذباتی ڈراموں تک زیادہ بہتر گفتگو اس ماں نے کی جس کا لخت جگر ایک دن پہلے بے دردی سے مارا گیا اور اس غم کی شدت سے گزرتے ہوئے وہ اسکا کیس لڑ رہی تھی کہ ذیشان کی بیوہ اور بچوں کو دہشتگرد باپ کے کلنک کے ساتھ نہیں جینا۔ بے بسی کی انتہا یہ تھی کہ اس نے احتجاج بھی نہیں کیا کہ میرے بیٹے کو کیوں مار ڈالا؛ بس اب اسے اپنی بہو اور پوتوں پوتیوں کی معاشرے میں بقا کی پرواہ تھی۔ کیسی بے انصافی ہے اور کیسی بے بسی ہے۔ اس نے عندلیب عباسی کو گواہ مقرر کیا۔ اسکی ٹی پی آر بڑھ گئی لیکن وہ بھی آئیں بائیں شائیں کرتی نظر آئی اور اس بوڑھی ماں کا کھل کر ساتھ نہ دیا۔

دکھ درد اور کرب کو یکجا دیکھنا ہو تو اسی پولیس گردی کا شکار خلیل، اسکی بیوی اور کمسن بیٹی کی لاشوں کے ساتھ بچ جانے والی دوننھی بیٹیوں اور ایک بیٹے کو دیکھ لیں۔ چھوٹا سا بیٹا روتا ہوا کہتا ہے کہ پاپا نے پولیس کو کہا، “پیسے لے لو گولی نہ مارو”؛ یہ فقرہ پوری داستان ہے!!!!! ایک عام آدمی کی پولیس کے بارے میں رائے !!!!! نزعی بیان کی طرح!!!! دو ننھی بیٹیاں روتی ہوئی، خون کے چھینٹوں سے لت پت پریشان نظروں سے ادھر ادھر دیکھتیں!!!! یہ دکھ الفاظ میں یہ بیان کرنا مشکل ہے۔ پوری دنیا میں پاکستانی صدمے اور شاک میں ہیں اور زیادہ تر خوف میں کہ کل ہماری باری ہوسکتی ہے۔

غلطی کس کی ہے؟ انٹیلی جنس کی یا پولیس کی!!! انٹیلی جنس کو کس نے تباہ کیا؟ نواز شریف سے بڑھ کر زرداری نے۔ نواز شریف کی کرپشن زیادہ تر مالی تھی لیکن زرداری اور بینظیر اس سسٹم کی رگوں میں کینسر بھر گئے۔ بے نظیر کے دوسرے دور میں اس کینسر کی بنیاد رکھی گئی۔ ہائی کورٹ کے تقدس کو پامال کرتے ہوئے جیالے جج بھرتی کئے گئے؛ جیالے کارکن ایسے ہائی کورٹ میں دندناتے پھرتے تھے جیسے ایم کیو ایم والے عشرت العباد کے گورنر ہاؤس میں۔ پیپلز پارٹی کے تحصیل عہدیداروں کو نواز نے کے لئے 1994 میں انٹیلی جنس، کسٹم، ایکسائز میں انسپکٹر پانچ سے سات لاکھ میں بھرتی کئے گئے۔ آجکل اگر کسی نے پلاٹ خریدنا ہو تو کہتا ہے “یار اچھی ڈیل مل رہی ہے ، دس لاکھ کم ہیں ادھار دے دو”، ان دنوں یہی حال تھا، “یار تیرے بھتیجے نے انٹیلی جنس انسپکٹر لگنا ہے دو لاکھ کم ہیں، دے دو، وہ “کما” کر چند ماہ میں واپس کردے گا”!!! غضب خدا کا؛ اتنی اہم پوسٹیں، کریانہ کی دوکانوں پر بکیں گی تو ان میں ایسے ہی کھوتے دماغ آج پچیس سال بعد ڈائریکٹر انٹیلی جنس لگے ہوئے ہوں گے۔ نواز شریف نے آکر 1997 میں ان سب کو نکالا تو “زرداری نما بیماری” نے 2007 میں ان سب کو پچھلے دس سال کی تنخواہ کے ساتھ واپس رکھ لیا۔ یہ سانحہ تو اس ناسور کی محض ایک علامت ہے؛ ورنہ پورا جسم جکڑا جا چکا ہے۔

ایک ڈاکٹر، ایک انجنئیر، ایک سیکنڈ لیفٹیننٹ بارہویں پاس کرکے بنتا ہے؛ اس عمر تک ہم کتنے کہ کرپٹ ہوتے ہیں؟ فلرٹ کرلیا، سگریٹ کی ڈبی اڑا لی؛ گھر کے سودے کے پیسوں میں سے کچھ جیب میں ڈال لئے اور یہ علتیں بھی اچھے ماحول میں جاکر دور ہوجاتی ہیں؛ نجانے کیوں انسپکٹر یا اے ایس پی بننے کے لئے “پکی عمر” کا انتظار کیا جاتا ہے، جب تک معاشرے کی محرومیاں اور لامحدود خواہشیں ایک دم طاقت آنے کے بعد، اپنا منہ کھول کر کھڑا ہوجاتی ہیں۔ بہت سوں کی جب تک شادی ہو چکی ہوتی ہے اور ضرورتیں، کردار بننے سے پہلے ہی نگل جاتی ہیں۔ کیوں نہیں اتنے اہم شعبوں کے لئے چھوٹی عمر سے ہی سلیکشن کی جائے؟؛ ذہن اور کردار کی تعمیر کی جائے! ہوسکتا ہے اس سے کچھ بہتری آجائے ورنہ آجکل تو صاحب؛ “پولیس سے ڈر لگتا ہے، ڈاکوؤں سے نہیں”!!!!

‏‎کالم نگار: راؤ کامران علی، ایم ڈی
ہر بدھ وار کو کالم لکھا جاتا ہے۔ اگر پسند آئے تو شئیر کریں۔ مزید کالم پڑھنے کے لئے اس پیج Tez Hay Nok e Qalamکو like کریں شُکریہ

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *