سر سید احمد خان علی گڑھ کالج کے لئے چندہ اکٹھا کرنے کے لئےجلسہ عام میں تقریر کررہے تھے تو حاضرین کی بے رخی دیکھ کر فرمایا ”جب مجرا سننے جاتے ہو تو جیبیں خالی کرکے لوٹتے ہو ، قوم کے نام پر سرد مہری اختیار کئے ہوئے ہو“ حاضرین میں سے ایک منچلے نے فقرا کسا آپ بھی مجرا کرکے دکھادیں تو ہم جیبیں خالی کردیں گے؛ اور پھر فلک نے دیکھا کہ سفید نورانی ریش مبارک کے ساتھ سرسید نے اپنی قمیض شلوار میں ڈالی اور اسٹیج پر ناچنا شروع کردیا۔ شرم کے مارے لوگوں کے سر جھک گئے اور انکے پاس جو کچھ تھا سرسید کی جھولی میں ڈال دیا۔
انسان کی انا اور اکڑا ہوا سر کیا ہے اگر وہ کسی مقصد کے لئے جھک نہ سکے۔ عمران خان کو بچپن سے ٹی وی پر دیکھ رہے ہیں؛ ملکہ برطانیہ سے لیکر صدر ضیاالحق سے مصافحہ کرتے ہوئے، وہ اتنا ہی بے نیاز اور تن کر کھڑا ہوتا تھا جیسے کسی بھی عام بندے سے ملتا تھا لیکن جب ذمہ داری قوم کی پڑی تو کبھی ابوظہبی کے ولی عہد تو کبھی سعودی عرب کے کراؤن پرنس کا ڈرائیور بن گیا؛ مقصد نہ تو خود پر مقدمے ختم کروانے تھے اور نہ ہی سعودی عرب میں اسٹیل مل لگانی تھی؛ قوم کے لئے “اسٹیل” جیسا بندہ موم بن گیا، جھک گیا۔
پاکستان کی بری معیشت سے لیکر مہنگائی اور بیروزگاری تک پر جتنی چاہیں بحث کی جاسکتی ہے لیکن چند ماہ کی حکومت کو اسکا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جاسکتا؛ اسکو بہتر کرنے کی کوششوں کو سراہا ضرور جاسکتا ہے۔ مانا کہ ٹیم نا تجربہ کار ہے لیکن جیسے لوہار کے وزیراعلیٰ بیٹے نے سیکھا ویسے ہی کسان کا بیٹا بھی سیکھ لے گا۔ جب گردشی قرضے سر پر ہوں اور دہائیوں سے لٹیرے ملک کو لوٹ رہے ہوں تو پہلا کام اس ملک کو “آئی سی یو” سے باہر نکالنا ہے؛ خواہ قرضے لیکر ہی کیوں نہ ہو۔
ایسے خوشی کے موقعے پر “شریک” باز نہیں آئے؛ مقبوضہ کشمیر میں پلوامہ کا واقعہ اور پھر ایرانی بارڈر پر دہشت گردانہ کاروائی؛ سرجیکل سٹرائیک کی دھمکیاں دینے والے کل پھر مقبوضہ کشمیر میں ایک میجر کی ارتھی اٹھا چکے ہیں جبکہ تین سینئیر آفیسر زخمی ہوئے۔ جو اکتالیس سپاہی مرے وہ انڈیا کے سہی لیکن دکھ ہوا ایسے ہی جیسے مظلوم کشمیریوں پر مظالم دیکھ کر ہوتا ہے۔ پاکستان میں بیٹھ کر ہر انڈین فوجی سے نفرت ہوتی ہے لیکن امریکہ میں انڈین کے ساتھ کام کرکے اندازہ ہوتا ہے کہ سپاہیوں اور عام فوجیوں کے ایک جیسے حالات ہیں؛ وہی تعلیم، صحت اور انڈیا میں تو فوجی کے لئے بیٹی کی شادی کرنا محال ہے؛ ناں مال ہوگا تو نہ جہیز بنے گا اور نہ ڈولی اٹھے گی، ایسے میں لاشیں گھر پہنچیں تو پورا گھرانہ اجڑ جاتا ہے۔ جو مائیں ارتھیوں سے لپٹی ہیں؛ معصوم کشمیریوں کے جنازوں اور ان ماؤں کا درد سمجھ سکتی ہیں۔ جس وزیراعظم نے مسلمانوں کو گجرات میں جلا کر حکومت کی راہ ہموار کی، لگتا ہے کہ اب اپنوں کو مروا کر دوسری بار آنا چاہ رہا ہے؛ انڈیا میں نفرت کی آگ بھڑکا دی گئی ہے۔ جو لوگ گائے کے گوشت پر مسلمان کو شہید کردیں؛ پاکستان سے میچ ہارنے پر یوراج سنگھ کو قتل کی دھمکی دے دیں؛ ایک افسانوی کردار پدمنی دیوی پر بنی فلم پر کہرام برپا کردیں؛ ان سے عقل کی امید تو کم ہی ہے لیکن یہ بات طے ہے کہ وہ صرف فلموں میں “سرجیکل سٹرائیک” کرسکتے ہیں؛ حقیقی زندگی میں کریں گے تو عمران خان کا پیغام تو مل ہی گیا ہوگا۔
سعودی عرب اور ابوظہبی کبھی بھی انڈیا کے مقابلے میں پاکستان کا ساتھ نہیں دیں گے۔ انڈیا جیسی بڑی اکانومی انکے مفاد میں ہے۔ ہمارا اسٹیٹس ایسا ہی ہے جیسے امیر آدمی “کن ٹٹے” سے بنا کر رکھتا ہے لیکن کاروبار اپنے جیسے امیر سے کرتا ہے۔ پاکستان کا کوئی بھی سفیر جو ابوظہبی میں سفارتکاری کرچکا ہو آپکو بتائے گا کہ کراؤن پرنس کی پاکستان بارے کتنی بری رائے ہے اور بھارتیوں پر کیسا نظر کرم ہے۔ امید ہے کہ اس میں بہتری آئے گی۔ ایران سے مقابلے کے لئے، اسرائیل، سعودی عرب اور انڈیا میں بہترین تعلقات کے قیام کا ضامن ہے اور اسکے باعث انڈیا اور پاکستان میں جنگ نہیں ہونے دیگا۔
بات “شاہ کے ڈرائیور” کو سلام کرنے سے شریکوں کی طرف نکل گئی۔ عمران خان کو “ڈرائیور” کہنے والے اسکی دوسری ٹرم پر ایسے ہی مہر لگا رہے ہیں جیسے مودی کو ایک بڑی ذات کے سیاستدان نے “چائے والا” کہہ کر لگا دی تھی!!! اب یہ ڈرائیور قوم کو منزل پر لیکر جا کر ہی بریک لگائے گا!!!! انشاالّلہ
کالم نگار: راؤ کامران علی، ایم ڈی
ہر بدھ وار کو کالم لکھا جاتا ہے۔ اگر پسند آئے تو شئیر کریں۔ مزید کالم پڑھنے کے لئے اس پیج Tez Hay Nok e Qalam کو like کریں شُکریہ-