چوہدری محمد سرور ایک محنت کش انسان ہیں؛ لگ بھگ چالیس برس قبل سکاٹ لینڈ تشریف لے گئے، اپنا کاروبار شروع کیا اور اسکے ساتھ ہی کونسلر کے الیکشن سے ان دونوں سیاست میں قدم رکھ دیا جن دنوں بیرون ملک سیاست کا رواج نہیں تھا۔ یوکے کے پہلے مسلمان اور ایشین ممبر پارلیمنٹ بنے اور پیچھے مُڑ کر نہیں دیکھا۔ وہ 1997-2010 تک ممبر پارلیمنٹ رہے جبکہ 1998 میں انھیں اور انکے دوست ممتاز حسین کو مخالف سیاستدان کو بٹھانے کے لئے رشوت دینے پر انکی رکنیت معطل کردی گئی جو کہ بعد میں بحال ہوئی۔ انکے بیٹے پر آٹھ لاکھ پچاس ہزار پاؤنڈ کے فراڈ کا الزام لگا اور یہ کیس گلاسکو ہائی کورٹ میں بھی چلا اور الزام ثابت ہوگیا۔ عاطف سرور کو پانچ لاکھ پینسٹھ ہزار پاؤنڈ “واٹ فراڈ اسکیم” اور دو لاکھ اسی ہزار پاؤنڈ دھوکے سے ٹرانسفر کے جرم میں مئی 2007 میں سزا ہوئی اور تین سال کی جیل کاٹی۔
یہ وہ زمانہ تھا جب شریف برادران لندن میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہے تھے، سعودیہ میں تو مال مُفت کی موجیں لگی ہوئی تھیں لیکن لندن میں مالی مشکلات کا سامنا تھا۔ ان دنوں چوہدری سرور کی میاں برادران سے ملاقات ہوئی اور گھاگ بزنس مین؛ وضعدار میاں نواز شریف کو شیشے میں اتارنے میں کامیاب ہوگیا؛ میاں شہباز شریف کے پہلے دن سے چوہدری سرور کے حوالے سے تحفظات تھے لیکن ٹونی بلئیر کے ساتھ چوہدری صاحب کی تصاویر اور فون پر بات چیت نے بڑے میاں کو چت کردیا۔ میاں صاحب کے پاکستان واپسی کی پہلی کوشش کے موقع پر بھی مبینہ طور پر چوہدری صاحب کے دعوے تھے کہ مشرف کو “اوپر” سے فون جاچکے ہیں لیکن مشرف نے میاں صاحب کو واپس بھیج دیا۔ قصہ مختصر میاں صاحب 2007 میں تو حکومت نہ بنا سکے لیکن چوہدری سرور سے وعدہ کرلیا کہ اگر وفاقی حکومت بنی تو وہ گورنر ہوں گے۔ اسی لئے 2013 کے الیکشنز میں چوہدری سرور نے ن لیگ کے لئے یو کے میں فنڈ ریزنگ کی اور خوش قسمتی کے ساتھ ساتھ بہترین پلاننگ کرتے ہوئے دوسروں کے پیسوں سے خود گورنر بن گئے۔ یہ بات بڑی مشہور کرنے کی کوشش کی گئی کہ ملک و قوم کی خاطر، اسکاٹش پارلیمنٹ کی سیٹ اور شہریت چھوڑ دی جبکہ حقیقت یہ تھی کہ خود پر اور بیٹے پر الزامات کے بعد یو کے کی سیاست میں لمبی اننگز کا چانس تھا بھی نہیں اور لاہور کا “لاٹ صاب” بننا زیادہ سُہانا خواب تھا۔ اب چوہدری صاحب گورنر تھے اور وہ بھی میاں شہباز شریف کے ساتھ جو آئی جی سے لیکر ایس ایچ او کے تبادلے پر نظر رکھتے ہیں۔ چوہدری صاحب بغیر الیکشن جیتے بلکہ پاکستان کی حد تک پتا ہلائے بغیر گورنر بن گئے تھے اور انکا خیال تھا کہ انکے پاس کچھ اختیارات بھی ہوں گے اور وہ “نائک” کے انیل کپور کی طرح چند دونوں میں کشتوں کے پشتے لگا دیں گے لیکن شہباز شریف نے انکو بلا کر کان صاف کردئیے کہ وہ محض یونیورسٹیوں میں ڈگریاں بانٹ سکتے ہیں اور مہمان خصوصی بن سکتے ہیں۔ چوہدری صاحب نے یو کے میں فنڈ ریزنگ کے دوران جو وعدے کئے تھے وہ پورے نہ ہوئے بالخصوص قبضہ گروپ کے متاثرین سے، تو پریشر بڑھانے کے لئے انھوں نے میڈیا کے سامنے رونا دھونا شروع کردیا اور حکومت پر تنقید کی۔ طاہر القادری کی پاکستان آمد کے حوالے سے مشکوک حرکات پر اور بارک اوباما کے انڈیا کے دورے کو نواز حکومت کی ناکامی قرار دینے پر شریفین نے انھیں نکال باہر کیا۔ کالم نگار ہارون رشید کے غیر ضروری قلابے ملاتے کالموں نے عمران خان کو چوہدری صاحب کی “عظمت” اور سیاسی تدبر سے آگاہ کیا اور چوہدری صاحب سینیٹ کی سیٹ اور وزیراعلی کے اختیارات کے ساتھ دوبارہ گورنر بننے کا وعدہ لیکر پی ٹی آئی میں آگئے اور دوبارہ گورنر بن کر بامراد ہوئے۔
راقم کی گزشتہ دسمبر میں گورنر ہاؤس میں ملاقات ہوئی؛ انت بادشاہی ماحول تھا؛ فارغ اراکین اسمبلی اردگرد بیٹھے خوشامدیں کررہے تھے، کوئی نجات دہندہ قرار دے رہا تھا، کھابہ گیری چل رہی تھی۔ راقم کی میٹنگ ایک سنجیدہ پراجیکٹ کے سلسلے میں تھی لیکن وہاں ایسا کوئی ماحول نہیں تھا۔ کچھ بات چیت کے بعد پراجیکٹ کی رپورٹ گورنر صاحب ہی کی طرح فارن سے درآمد کردہ پی ایس او رابعہ ضیا کو دے دی جو کہ لندن میں پلی بڑھی ہیں؛ تاکہ مزید بات چیت ہوسکے- پاکستان میں کام کرنے کے لئے سسٹم سے نابلد گورنر اور انکی پی ایس او جو اردو بھی لکھ اور پڑھ نہیں سکتی سب سے بڑا صوبہ سنبھال رہے ہیں؛ رہے نام الّلہ کا! غالباً اسی لئے ایسا نکھٹو وزیراعلی لگایا گیا جس کا کام اسٹمپ لگانا تھا؛ لیکن اسٹیمپ اس نے چوہدری سرور کی بجائے جہانگیر ترین کے کہنے پر لگانا شروع کردی تو چوہدری سرور اور شاہ محمود قریشی مل کر میدان میں آگئے۔ حال ہی میں گورنر کے فیورٹ آئی جی کو نکال کر، اشارہ دے دیا گیا ہے۔
آجکل چوہدری صاحب صاف پانی پراجیکٹ کے لیے امریکہ میں فنڈ ریزنگ کررہے ہیں۔ یقیناً یہ ایک بہترین پراجیکٹ ہے لیکن چند سوالات ضرور اٹھتے ہیں۔
۱- گورنر اور حکومتی پارٹی کا اہم حصہ ہونے کے باوجود صوبائی مسائل کے حل کے لئے حکومتی وسائل استعمال کیوں نہیں ہورہے؟
۲- کیا ایک حاضر سروس گورنر ایسے بیرون ملک فنڈ ریزنگ کرسکتا ہے؟
۳- اگر کر بھی سکتا ہے تو کیا اپنی پرائیویٹ این جی او کے تحت کرے جس کا آڈٹ بھی حکومتی ذمہ داری نہ ہو یا کہ حکومتی خزانے میں؟ کیا یہ “کنفلکٹ آف انٹرسٹ” نہیں؟
۴- اگر حکومتی طور پر نہیں کرسکتے تو استعفی دیکر کیوں نہیں کرتے۔ لوگ بھرپور تعاون کریں گے۔
عمران خان نے شوکت خانم سے لیکر نمل، عوام کے پیسوں سے بنایا لیکن حکمران بننے کے بعد بھی یہی کام جاری رکھا تو لوگوں نے تعاون کرنے سے انکار کردیا اور ڈیم فنڈ فلاپ ہوگیا اور اب اسکے “ساتھی” بھی اسی کام پر لگ گئے ہیں۔ بھائی صاحب؛ یا تو حکومت کرلو یا عوام سے مانگ لو؛ دونوں ڈرامے ساتھ چلائیں گے تو دونوں ہی فلاپ ہوجائیں گے۔ جب حکمران دوکان کھولے گا تو سواد خریدنے کے بہانے رشوت دی جائے گی، یہی اصول فنڈ ریزنگ پر لاگو ہوتا ہے۔ حکمرانوں پر عوام کے حقوق ہوتے ہیں، کچھ فرائض ہوتے ہیں، این جی اوز چلانا ان فرائض میں شامل نہیں۔ فرض نمازیں ادا کریں نوافل بعد کی بات ہے!
کالم نگار: راؤ کامران علی، ایم ڈی
ہر بدھ وار کو کالم لکھا جاتا ہے۔ اگر پسند آئے تو شئیر کریں۔ مزید کالم پڑھنے کے لئے اس پیج Tez Hay Nok e Qalam کو like کریں شُکریہ-