یہ ایک بڑا سا میدان ہے، چہرے پر سادگی اور بے چار گی لئے، خاکی کپڑے پہنے نو عمر باریش لڑکے ڈنڈے تیار کررہے ہیں، انکے اوپر پرچم لگا رہے ہیں اور قطاریں ترتیب دے رہے ہیں۔ اتنی دیر میں میر کارواں، عالموں کے رہبر مولانا فضل الرحمان تشریف لاتے ہیں اور یہ سادہ لوح نوجوان “گارڈ آف آنر” پیش کرتے ہیں؛ ڈنڈے بندوقوں کی طرح پکڑے، چہروں پر بیزارگی کے ساتھ لٹکتے کاندھوں اور ڈھیلی باڈی لینگویج لئے یہ جوان رنگ برنگے جوتوں کے ساتھ مارچ پاسٹ کررہے ہیں۔ بعد میں سر کے بل کھڑے ہورہے ہیں؛ نجانے اس قسم کے “گارڈ آف آنر” میں قبلہ فضل الرحمان کیا دیکھنا چاہ رہے تھے؟ تاہم “مجبوری کا نام شکریہ” کیا ہوتا ہے، مجسم دیکھ لیا، سب نے!
ان طالبعلموں کے ساتھ یہ سب کیوں ہورہا ہے۔ یہ جاننے کے لئے آپکو جاننا پڑے گا کہ ایک عام اسکول سے پڑھے بچے اور مدرسے سے پڑھے بچے میں کیا فرق ہوتا ہے؟ دونوں ایک جیسے معاشرے اور سماج کا حصہ ہوتے ہیں، بعض اوقات ایک ہی گھر کا ایک بچہ انجنئیر بن رہا ہوتا ہے اور دوسرا مدرسے میں ہوتا ہے۔ تو یہ خلیج کیوں؟ ایک عام بچہ زندگی کو اپنے مشاہدے کی عینک سے دیکھتا ہے اور اپنی مرضی اور ماحول کے تحت عینک بدل سکتا ہے۔ آج کا تیس سال کا جوان، گووندا کے فین سے ہوتا ہوا ڈیوڈ دھون کا فین بن چکا ہوگا۔ پڑوسن کی لڑکی کو رقعے بھیجنے سے ہوتا ہوا فیس بک پر کسی جرمن یا کینیڈین بڈھی پر ڈورے ڈال کر “بار کے ملک” جانے کی تھان رہا ہوگا، اپنی مرضی کے مضامین رکھ کر ان میں سپلیاں لے رہا ہوگا۔ نواز شریف سے لیکر آئن اسٹائن فواد چوہدری کے میمز بنا رہا ہوگا اور زندگی کی رنگینیوں سے لطف اندوز ہورہا ہوگا۔
ایک مدرسے کا بچہ ننانوے فیصد اپنی مرضی کے خلاف مدرسے آیا ہوگا اور دو بڑی وجوہات میں سے ایک غربت ہوگی کیونکہ بچے کے ابا جان نے “مسرت کے لمحوں” میں منصوبہ بندی کی بجائے مشہور زمانہ فقرہ دہرایا ہوگا کہ “ہر بچہ اپنا رزق ساتھ لیکر آتا ہے” اور بعد میں وہی رزق مدرسے کے ذمے لگا دیا یا پھر ابا جان نے سُنا ہوگا کہ “حافظ کے ماں باپ بھی جنت میں جائیں گے” اور اپنے اعمال پر جنت میں جانے کے امکانات خاصے کم ہونگے تو بچے کے ذریعے جایا جائے؛ گستاخی معاف لیکن اس سے بڑی خودغرضی نہیں ہوسکتی۔ اگر بچہ خود حفظ کرنا چاہے تو سو بسم الّلہ؛ امریکہ میں بھی کئی دوستوں کے بچوں نے مرضی سے حفظ کیا ہے لیکن اگر یہ ابا جان اپنی آخرت کے لئے کررہے ہیں تو الّلہ دلوں کے حال جانتا ہے!
بچے کی زندگی میں سب سے بڑی چیز عزت نفس ہوتی ہے، مدرسے کے بچوں کو برتن دیکر گھر گھر سے روٹی سالن مانگنے بھیج دیتے ہیں اور خاتون خانہ کے موڈ کے مطابق کبھی سالن تو کبھی دھتکار ملتی ہے۔ یہاں سے انھیں دھتکار کو معمول سمجھنے اور مانگ کر کھانے کو روٹین سمجھنے کی عادت پڑ جاتی ہے۔ کسی امام مسجد کو آپ جانتے ہیں جو امامت اور مسجد سے ملے وظیفےکے علاوہ محنت مزدوری بھی کرتے ہیں؟ یہاں سے اگلا مرحلہ جھوٹ اور بے ایمانی کا ہوتا ہے؛ اکھٹے کئے گئے سالن میں سے بوٹیوں والا سالن “استاد” کا ہوتا ہے اور اگر بچہ رستے میں بوٹی اڑا لے تو اسے جھوٹ بولنا پڑتا ہے ورنہ “استاد” اسکی تکہ بوٹی ایک کردے گا۔ اور یہاں سے تشدد کا آغاز ہوتا ہے؛ بچے کو مار کھانے اور ظلم برداشت کرنے کی عادت ہوجاتی ہے۔ “استاد” کی “سائیڈ کِک”عموماً کوئی مسٹنڈا قسم کو طالبعلم ہوتا ہے جو باقی بچوں کو جسمانی اور بعض اوقات جنسی تشدد کا نشانہ بناتا ہے۔ اسکے ہاتھ میں ہوتا ہے کہ اکھٹے کئے گئے سالن میں سے قیمہ کسے ملے گا اور دال کسے؛ رات کو سوتے وقت کمبل کسے ملے گا اور چادر کسے، اتنے “اختیارات “ایک گھٹن زدہ ماحول میں کافی ہوتے ہیں جن میں ایک بچہ اپنے آپ کو ایسے مسٹنڈے کے حوالے کردے۔ ضروری نہیں کہ ہر مدرسے میں ایسا ہو لیکن بہت سوں میں یہی ہوتا ہے اور پھر یہاں سے نکلنے والے “سدھائے ہوئے” نوجوانوں سے چاہے ڈنڈا گارڈ آف آنر کروا لیں، چاہے آزادی مارچ کے نام پر چند ایک کو قربانی کا بکرا بنا کر سیاسی فائدہ لے لیں؛ چند ایک مر بھی گئے تو والدین جنت کے آسرے پر خوش اور خاک پر سو کر جوان ہوئے ان بدنصیبوں کا حال وہی کہ “یہ خون خاک نشیناں تھا رزق خاک ہوا”۔
مولانا فضل الرحمان کا حق ہے کہ دھرنا دے، مارچ کرے لیکن ایسے وقت جب پوری دنیا کشمیر کے مسئلے پر سنجیدہ ہے؛ دو اہم سینیٹرز، میگی حسن اور کرس وان ہالن، پاکستان کا چکر لگا کر گئے، دس سے بیس مزید کانگریس مین پاکستان آنے والے ہیں، مولانا، پوری دنیا کی توجہ کشمیر سے ہٹا رہے ہیں۔ اگر اسلام آباد لاک ڈاؤن ہوا تو کانگریس مین اپنا وزٹ کینسل کردیں گے۔ فائدہ کسے ہوگا؟ مزید برآں، عام ووٹر کو سڑکوں پر لائیں؛ سرکار، آپ ان بچوں کے سامنے “فیلڈ مارشل فضل الرحمان” یا “وزیراعظم فضل الرحمان”بننے کا شوق پورا مت کریں۔ آپ پر تو ہنسی آتی ہے لیکن ان بچوں پر ترس آتا ہے۔ ہیں تو یہ ہمارے ہی بچے، ہماری قوم کے بچے؛ ان پر رحم کریں، اس تماشے اور آگ کے کھیل سے دور رکھیں! الّلہ آپکا بھلا کرے! آمین
کالم نگار: راؤ کامران علی، ایم ڈی
ہر بدھ وار کو کالم لکھا جاتا ہے۔ اگر پسند آئے تو شئیر کریں۔ مزید کالم پڑھنے کے لئے اس پیج Tez Hay Nok e Qalam کو like کریں شُکریہ-