لگ بھگ تین ہفتے قبل خوبصورت لاہور کے خوبصورت ائیرپورٹ پر جہاز لینڈ کیا تو اپنی مٹی کی سوندھی خوشبو رگ و پے میں اتر گئی۔ یہ “نئے پاکستان” کا پہلا “دورہ” تھا۔ ہمیشہ کی طرح پہلی ملاقات “پیر و مرشد” ڈاکٹر صداقت علی سے ہوئی؛ کیا کمال انسان ہیں؛ دس کتابیں پڑھنا ایک طرف اور دس منٹ ان کے ساتھ بات کرنا ایک طرف۔ یہ “پیر و مرشد” دم درود والے نہیں بلکہ بے حد کامیاب ڈاکٹر ، بزنس مین اور موٹیویشنل سپیکر ہیں اور مسائل کا حل عملی طور پر نکالنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ لگ بھگ اٹھارہ سال قبل، ان سے پہلی مرتبہ سیکھا تھا کہ “اپنے حالات کی ذمہ داری خود اٹھاتے ہیں” جسے پروایکٹیویٹی کہا جاتا ہے اور آج تک اس ایک concept نے دنیا یا حالات سے گلے شکووں سے بچا کر رکھا ہے۔ کامیابی کی پہلی کنجی ہی احساس ذمہ داری یعنی اپنی ذمہ داری کا احساس ہے۔ ڈاکٹر صداقت کے آفس میں ہی خوش گفتار اور خوش شکل ڈاکٹر اعجاز قریشی سے سالوں بعد ملاقات ہوئی۔ دونوں ڈاکٹر صاحبان ایف ایم پر financial fitness (مالی استحکام) کے نام سے پروگرام کرتے تھے۔ کام کے سلسلے میں راقم کو کافی سفر کرنا پڑتا ہے۔ ایک کلینک سے دوسرے پر جاتے ہوئے، چائے کے مگ سے گھونٹ لیتے، گاڑی میں ڈاکٹر صداقت کے لیکچرز سننا اور سیکھنے کی کوشش کرنا میرا پسندیدہ مشغلہ ہے۔ یہ لیکچرز اور ٹاک شوز یوٹیوب پر بھی موجود ہیں۔
اگلا اسٹاپ ہمارے بچپن سے آئیڈیل شاہد رشید کا زاویہ ٹرسٹ اسکول تھا۔ شاہد رشید ایک بے چین روح کے نام سے جانا جاتا تھا۔ انجنئیر بننے سے لیکر بیوروکریٹ بننے تک کہیں سکون نہ ملا اور ملا تو بچوں کو پڑھا کر۔ آج کا مسئلہ محض تعلیم نہیں بلکہ تربیت کا فقدان ہے اور یہ جب ہوسکتی ہے جب بچے ایک خاص ماحول میں پلیں بڑھیں۔ پاکستان کے چاروں صوبوں سے غریب بچوں کو زاویہ اسکول میں بورڈنگ کے ساتھ بہترین تعلیم دی جاتی ہے اور تربیت بھی۔ آپ دیکھیں یہ بچے ایچی سونین سے بھی آگے جائیں گے۔ غریب بچوں کی اتنی اعلیٰ تعلیم کے لئے آپ سب کی مدد کی ضرورت ہے۔ ایک بچہ کا خرچہ اٹھا کر آپ قوم کو مستقبل کا اسکالر دے سکتے ہیں۔
اگلا پڑاؤ ہماری مادر علمی نشتر میڈیکل یونیورسٹی تھا۔ ڈاکٹر شفقت بلوچ نے پوری دنیا سے نشتیرین کو اکھٹا کرکے “نشتر ایلومنائی” کا میلہ جما رکھا تھا۔ بہترین میڈیکل لیکچرز کے ساتھ ساتھ نشتر کی ترقی کے لئے تبادلہ خیال کیا گیا۔ وائس چانسلر ڈاکٹر مصطفے کمال پاشا ایک بہترین ایڈمنسٹریٹر ہیں اور ڈاکٹر اعجاز مسعود ہر سال امریکہ میں نشتر کی نمائندگی کرکے پراجیکٹس کی نگرانی کرتے ہیں۔ سال رواں میں نشتر ایلومنائی کی تشہیر مزید منظم انداز میں کرنے کی ضرورت ہے اور ٹکٹ فیس کم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہر کوئی شامل ہوسکے۔ مالی طور پر نشتر کو ڈونیشن اکھٹی کرنے کے ساتھ ساتھ، امریکہ اور یورپ کی طرز پر سیٹلائٹ کلینکس اور ڈائگناسٹک سینٹرز کھولنے کی ضرورت ہے تاکہ مالی خود انحصاری حاصل ہوسکے۔
بڑے عرصے کے بعد، کچھ وقت طاقت کی غلام گردشوں میں گزرا۔ امریکہ میں “اپنا” کے پاکستانی ڈاکٹروں کو دئیے گئے قرض پروگرام کی کامیابی کے بعد اسکے دیگر شعبوں میں اعلی تعلیم کے فروغ کے لئے پاکستانی حکومت سے بات چیت ہوئی۔ گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور کا اچھا رسپانس تھا۔ ایڈیشنل چیف سیکرٹری سردار اعجاز جعفر بھی بے حد مددگار ثابت ہوئے۔ اس سلسلے میں مزید میٹنگز طے ہوئی ہیں تاکہ اس میں پاکستانی حالات کے مطابق ترامیم کی کا سکیں۔ اس پروگرام کی ترویج میں میرے پیارے دوست ڈاکٹر الّلہ بخش کھاکی بےحد مددگار ثابت ہوئے اور ورجینیا سے اکبر چوہدری صاحب نے دن رات ایک کردیا۔ انکے ذریعے جرنلسٹ طاہر ملک اور چیف منسٹر کے ایڈوائزر اکرم چوہدری نے شارٹ نوٹس پر میٹنگز ارینج کردیں۔ سب سے زیادہ بہترین رسپانس بلوچستان والوں کی طرف سے ملا۔
سیکریٹریٹ میں آنا جانا رہا تو میڈیکل کالج کے دوستوں سے ملاقاتیں ہوئیں جو سی ایس ایس کرکے اب “سرکاری بابو” بن چکے ہیں لیکن اس نظام میں تازہ ہوا کے جھونکے کی طرح ہیں۔ پی ٹی آئی کی گورنمنٹ کے سب ہی مداح نکلے؛ کسی پر کوئی پریشر نہیں۔ ڈاکٹر آصف طفیل ایڈیشنل ہوم سیکرٹری کی حیثیت سے کرپٹ عناصر کو گردن سے پکڑنے میں نیب کی مدد کر رہے ہیں۔کچھ وقت ڈاکٹر عاطف اکرام کے ڈی پی او آفس میں گزرا؛ ڈاکٹر اکرام، کمال صبر اور ضبط کے حامل پولیس افسر ہیں،اپنے جونئیرز کو مکمل طور پر بااختیار کیا ہے۔ پولیس کا ماحول پہلے سے بہتر ہے جس کا سب سے بڑا کریڈٹ سوشل میڈیا اور عوام کی آگاہی کو جاتا ہے۔ وزیراعظم کا شکایات کا پورٹل بھی برق رفتاری سے کام کررہا ہے۔
بدقسمتی سے سیکریٹریٹ میں عثمان بزدار کو سنجیدہ نہیں لیا جاتا۔ بس یوں سمجھ لیں کہ نالیاں اور پل والا کام انھیں دیا گیا ہے (صحیح تعارف کروایا تھا کہ وہ شہباز شریف لگے ہیں) جبکہ بڑے “آئی کیو” کے کام چوہدری سرور کو ریفر کر دئیے جاتے ہیں اور سیاسی معاملات جہانگیر ترین ہی دیکھتے ہیں۔ مزے کی بات ہے کہ میری میٹنگ وزیر اعلیٰ سے ہی ہونی تھی کہ ایک دوست آفیسر نے ہنستے ہوئے کہا کہ کام تو یہ چوہدری سرور کے ذریعے ہی ہونا ہے تو چل بائی پاس کرتے ہیں۔ میری ذاتی رائے میں عثمان بزدار کا اسٹیک اس ملک میں زیادہ ہے، اسکا اور اسکے بچوں کا جینا مرنا یہاں ہے؛ اسکے اختیارات کسی بھی آخری عمر میں “باہر کے ملک” سے آئے کو دینا ٹھیک نہیں۔ نئے پاکستان کی یہ بات پرانے سے بھی بدتر ہے۔ نئے پاکستان سے امریکہ واپسی تین دن پہلے ہوئی ہے؛ دو ریاستوں میں مریضوں کو دیکھتا، جیٹ لیگ سے لڑتا ہوا آج واشنگٹن ڈی سی پہنچا ہوں جہاں نئی منتخب کانگریس کو ہماری پاکستانی امریکن پولیٹیکل ایکشن کمیٹی آج شام عشائیہ دے رہی ہے۔ واشنگٹن ڈی سی کا موسم سردیوں میں بھی سہانا ہے۔ کل کی ٹرمپ کی تقریر کے بعد آج کی شام مصالحے دار گفت و شنید سے بھرپور ہوگی۔ سی این این اور فاکس نیوز پر دھواں دھار تقاریر کرنے والے سیاستدانوں کے دماغ ہم ٹٹولیں گے۔ پاک پیک پاکستان اور پاکستانی امریکیوں کی موثر نمائندگی کرتے ہوئے ہر نئی کانگریس کو عشائیہ دیتی ہے۔
نوٹ: میرے عزیز ہم وطنو، بہترین سے بہترین منرل واٹر کی بوتل سے پانی جب اسی گلاس میں ڈالا جائے جو “ٹُوٹی” کے پانی سے دھلا ہے تو اس سے بہتر ہے وہی ٹوٹی کا پانی پی لیا جائے۔ مزید برآں جب گلاس کو دھوئیں تو پیندے میں چند قطرے ڈال کر گھما کر پھینکنے سے وہ صاف نہیں ہونے والا؛ جہاں ہونٹ لگتے ہیں ان کناروں کو سوپ سے دھونا ضروری ہے ورنہ “بار کے ملک” سے آنے والا آپکا مہمان، مروت میں ناں تو کر نہیں سکے گا اور پی لے گا لیکن پیٹ یا منہ کی انفیکشن لیکر واپس لوٹے گا۔
کالم نگار: راؤ کامران علی، ایم ڈی
ہر بدھ وار کو کالم لکھا جاتا ہے۔ اگر پسند آئے تو شئیر کریں۔ مزید کالم پڑھنے کے لئے اس پیج Tez Hay Nok e Qalam کو like کریں شُکریہ-