برکت بابا، ریٹائرڈ مالی تھا؛ فارغ وقت گزارنے کے لئے گاؤں کے چوہدری کے باغیچے کے پودوں کی تراش خراش کرتا تھا۔ گزشتہ مہینے باغبانی کرتے ہوئے اسکے کان میں ٹی وی کی خبر پہنچی کہ انڈیا نے مقبوضہ کشمیر کے باسیوں پر ظلم و ستم کی انتہا کردی ہے اور کشمیری اب پاکستانیوں کی جانب تک رہے ہیں کہ کوئی مدد ہو، کوئی نجات دہندہ آئے۔ برکت بابا کا دل مسوس ہوکر رہ گیا۔ اسکے دل میں حسرت پیدا ہوئی کہ وہ کشمیریوں کی آواز کونے کونے میں پھیلا دے۔ اسی سوچ میں گُم گھر آیا تو چُپ چاپ ایک کونے میں بیٹھ گیا۔ اسکے پوتے نے موبائل پر چیٹ کرتے ہوئے پوچھا، “دادا جی آپ گم سم کیوں ہیں؟ “ برکت بابا نے اپنے دل کا حال بتایا تو پوتے نے ہنس کر کہا، دادا جی میں آپکا کشمیر پیج بنا دیتا ہوں فیس بک پر، اپنے سارے دوستوں اور محلے والوں کے ساتھ ساتھ بیرون ملک بھی پیغام پہنچ جائے گا۔ برکت بابا کی آنکھوں میں روشنی کے چراغ جل گئے۔ چند ہی دنوں میں بابا نے اس پیج کا استعمال سیکھ لیا اور دل کھول کر اپنا پیغام پہنچایا۔ ایک عجیب سی سرشاری چھاگئی تھی جھریوں سے مزین چہرے پر۔
ماسی پھاتاں تندور پر روٹیاں لگاتی تھی اور ساتھ ریڈیو رکھا ہوتا تھا۔ کشمیر کی جواں سال مشعل ملک کی رندھی آواز میں تحریر اسکا دل چیر دیتی تھی جس میں وہ سہاگن ہوتے ہوئے بھی سہاگن نہیں تھی کہ اسکا سہاگ انڈین ظلم و ستم کی داستان بن کر رہ گیا تھا۔ تندور کی گرمی سے زیادہ اسکا خون ابل کر رہ جاتا تھا لیکن بیچاری کیا کرتی۔ اسکا دل چاہتا تھا کہ وہ سارے جہاں کی عورتوں کو اکھٹا کرکے کشمیر کی عورتوں اور بچوں کے حق میں آواز بلند کرے، چیخے چلائے، دھرتی ہلا دے۔ ایک دن ایسے ہی تندور پر روٹیاں لگاتے اپنی بھڑاس نکال رہی تھی کہ ایک گاہک نے اسے وٹس ایپ گروپ کا بتایا۔ ماسی نے پانچ ہزار کا پرانا فون لیا اور روتی عورتوں اور خون میں نہلائے بچوں کی تصاویر دھڑادھڑ وٹس ایپ پر شئیر کرنا شروع کردیں۔ ایک غریب اور بے بس خاتون اس سے زیادہ کر بھی کیا سکتی تھی؟ لیکن اسکے جذبے کو لاکھوں سلام!
سلیم انصاری، انسانی حقوق کا بہت بڑا علمبردار تھا؛ سوشل سیکیورٹی میں پندرہ ہزار ماہوار تنخواہ تھی جس میں سے چار پانچ ہزار جلسے جلوسوں کے کرایہ بھاڑوں میں خرچ ہوجاتے اور بیچاری بیوی چیختی لڑتی بچوں کا پیٹ پالتی۔ جب سے انڈیا نے آرٹیکل 370 اور 35اے کا خاتمہ کیا، انصاری کا زیادہ وقت پلے کارڈ بنانے، احتجاج کے لئے لوگ اکھٹے کرنے پر لگ جاتا! ہر روز انسانوں کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر کشمیر کے حق میں نعرے مارتا!
ایک ہی علاقے میں رہنے کے باعث، برکت بابا، ماسی پھاتاں اور سلیم انصاری ایک دوسرے کی کاوشوں کے مداح ہوگئے۔ ایک دن پھاتاں کے تندور پر بیٹھے ہوئے انھوں نے تاسف سے کہا کہ ہم نے اتنی کوششیں کر لیں لیکن انڈیا ٹس سے مس نہ ہوا! پاکستان میں جو بھی کرلیں، انڈیا کو کیا پرواہ؟ تندور پر آئے ایک کسٹمر کے بیٹے نے کہا، میرے چاچو امریکہ میں ڈاکٹر ہیں اور وہاں بڑے امیر لوگوں نے وٹس ایپ پر گروپ بنایا ہے اور دیکھنا کہ مسئلہ کشمیر کیسے حل ہوتا ہے۔ برکت بابا، پھاتاں اور انصاری اچھل پڑے اور اس گروپ میں شامل ہونے کی خواہش کا اظہار کیا۔ لڑکے نے انھیں جعلی ناموں سے ڈاکٹر اور بزنس مین بنا کر گروپ
میں ایڈ کردیا۔ برکت بابا کا پوتا بھی یہ سن کر جوش میں آگیا اور بولا، دادا یہ لوگ بہت امیر ہیں؛ فیس بک پر انکے بڑے بنگلے اور شان و شوکت نظر آتی ہے، لاکھوں ڈالر تو یہ سیاحت پر ہی خرچ کر دیتے ہیں، یہ کشمیر کے لئے عملی طور پر کچھ نہ کچھ کریں گے۔
لیکن گروپ میں شامل ہوتے ہی تینوں کی امیدوں پر پانی پھر گیا۔ کوئی پانچ پانچ سال پرانے کشمیر پر آرٹیکل شئیر کررہا تھا؛ کوئی وہی تصویریں جو ماسی پھاتاں شئیر کرتی تھی، اس گروپ میں شئیر کررہا تھا۔ کوئی جذباتی چیخ دھاڑ کرکے، ایگزاسٹ کرکے، غائب ہوجاتا، کوئی مرثیے اور نظمیں لکھ کر اپنے تئیں، کشمیر سے محبت کا حق ادا کردیتا۔ کوئی بسیں بھر بھر کر بڑے شہروں میں لے کر جارہا ہے۔ برکت، پھاتاں اور انصاری کے منہ کھلے کے کھلے رہ گئیے کہ ان میں اور ہم میں کیا فرق ہے؟ اتنے وسائل کے بعد بھی اگر لفظی اور ہولناک واقعات شئیر کرنے والی “لڑائی” ہی کرنی ہے تو وہ تو پہلے ہی ہر بے کس اور مجبور کر رہا ہے؛ طاقت کا مرکز امریکہ میں واشنگٹن ڈی سی ہے جہاں قوموں کی تقدیر کے فیصلوں کے لئے پوری دنیا سے لابنگ ہوتی ہے۔ کیا وہاں یہ امیر لوگ اپنا اثر قائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں؟ ایک کانگریس مین ٹام سوزی نے کشمیر کے حق میں خط لکھا اور امریکی انڈین کمیونٹی کی طاقت اور سیاسی اثر نے اسکا ایسا ناطقہ بند کیا کہ وہ سرعام معافی مانگنے پر مجبور ہوگیا اور باقی سب کو کان ہوگئے؛ تو پاکستانی امریکیوں کی دولت کا کیا مصرف اگر سیاسی اثر ور سوخ ہی نہ ہو؟ واشنگٹن ڈی سی میں کانگریس منگل یا بدھ کو ہوتی ہے اور سارا اثر ان دو دنوں میں ہوتا ہے۔جب وہاں کوئی تنظیم اجتماع کرے تو ایک ایک دن کے ہزاروں ڈالرز کمانے والوں کے لئے ایک چھٹی محال ہوجاتی ہے۔ خواب دیکھنے کشمیر آزاد کروانے کے اور ایک چھٹی تک لے نہ سکنا؛ یہ کہاں کی عملیت ہے؟ جذبے میں کچھ تو سچائی ہو تو کچھ کرکے دکھائیں ورنہ یہ ظلم و ستم والی ویڈیوز خود تک رکھیں؛ دوسروں کو آپکی شئیرنگ کی ضرورت نہیں؛ آپ یہ مریخ سے ٹیلی کاسٹ نہیں کررہے؛ جو ٹی وی یا فیس بک آپکو یہ دکھا رہے ہیں، باقیوں کو بھی دکھا رہے ہیں۔ اور یہی اصول پوری دنیا میں رہنے والے پاکستانیوں پر لاگو ہوتا ہے کہ یورپ ہو یا روس، سیاسی اثرورسوخ کے لئے کام کریں۔
تازہ ترین اطلاعات کے مطابق، برکت، پھاتاں اور انصاری امیروں کا وٹس ایپ گروپ چھوڑ کر اپنے علاقے میں کام کررہے ہیں اور خوش ہیں کہ اپنی حیثیت کے مطابق سو فیصد اپنے مشن کو دے رہے ہیں!
کالم نگار: راؤ کامران علی، ایم ڈی
ہر بدھ وار کو کالم لکھا جاتا ہے۔ اگر پسند آئے تو شئیر کریں۔ مزید کالم پڑھنے کے لئے اس پیج Tez Hay Nok e Qalam کو like کریں شُکریہ-