وکلا گردی؛ ایک ناسُور

‎برائی اور بدمعاشی کو ختم ہونے سے پہلے عروج تک
‎پہنچنا ہوتا ہے؛ کلاس کے سب سے نالائق اسٹوڈنٹ جو محض بدمعاشی کے لئے وکیل بن جاتے ہیں؛ اپنی حدوں کو چھو چُکے ہیں! ڈاکٹروں پر حملہ بھی برداشت کرلیا لیکن اب مریضوں پر حملہ ناقابل قبول ہے۔کبھی کسی جنگ میں بھی ہسپتال پر حملہ نہیں ہوا۔ ایسے جانوروں کو کیفر کردار تک پہنچانا فرض ہے۔

‎رہی بات ہڑتال کی دھمکی کی؛ تو عدالتیں ایک سال تک بھی بند رہیں تو فرق نہیں پڑنا؛ پہلے کون سا انصاف کا من و سلوا اتر رہا ہے۔ اور ڈاکٹروں کے کون سے مقدمے چل رہے ہیں کہ انھیں پریشانی ہوگی۔ لیکن اگر کوئی ہسپتال کی ایمرجنسی ڈاکٹروں کی ہڑتال کے باعث محض ایک گھنٹے کے لئے بند ہوگئی تو قیامت صغرٰی برپا ہوجائے گی؛ اٹ پٹو تو وکیل نکل آتا ہے اور چونکہ کمائی تو انکی دھیلا نہیں ہوتی بس بدمعاشی ہوتی ہے اسلئے سرکاری ایمرجنسی بند ہونےکے زیادہ تر متاثرین میں وکلا یا انکے رشتہ دار شامل ہوں گے، پرائیویٹ ہسپتال کی اوقات نہیں ہے ان حملہ آور جانوروں کی۔

‎اسلئے نہ عدالتیں بند ہونی چاہئیں اور نہ ہسپتال!!! قتل، دہشت گردی اور اقدام قتل کی دفعات لگنی چاہئیں حملہ آوروں پر!!!!

‎ڈاکٹروں کو جھکنا نہیں چاہئے اور نہ ہی مریضوں کو ورنہ یہ “ویلے” باپ کا مال سمجھ کر ہر ہسپتال میں گھس آیا کریں گے!

راؤ کامران کی ڈائری سے😡

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *