پاکستانی لڑکیوں کی شادیاں اور اسمگلنگ

بیرون ملک موجود دوستوں اور رشتہ داروں سے رشتے کی بات تقریباً ہر خاندان میں ہوتی ہے اور “ضرورت رشتہ” کا ہر اشتہار “لڑکا بیرون ملک سیٹ ہے” کی کششش سے لبریز ہوتا ہے اور بیرون ملک جانے کے بعد پتا چلتا ہے کہ “سیٹ” کا کیا مطلب تھا۔ ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں راقم کی آمد کے وقت یاہو اور ایم ایس این میسینجر ہی “فیس بک” تھے اور کبھی کبھار میسیجز آجاتے تھے کہ “کوئی رشتہ ہو تو بتانا”؛ عموماً زیادہ تر ڈاکٹروں کے ہوتے تھے! آہستہ آہستہ فیس بک شروع ہوئی تو لڑکیوں کے میسیجز آتے تھے جن میں ریتھک روشن جیسی پرسنیلٹی والا لڑکا جو کہ امیر بھی ہو، کی خواہش ہوتی تھی اور لڑکےلکشمی متل کی بیٹی جیسی آسامی کے پیچھے تھے (ان دنوں سب سے مہنگی شادی اسکی تھی، امبانی، متل سے نیچے تھا)۔ وقت کیساتھ ساتھ “کرائیٹیریا” ہلکا ہوتا گیا یہاں تک کہ جب “تیز ہے نوک قلم” شروع کیا اور لاکھوں پڑھنے والوں سے رابطہ ہوا تو بہت سے میسیجز ایسے آتے تھے کہ لڑکا بے شک گورا ہو، کالا ہو عیسائی ہو، یہودی ہو، رشتہ کروا دیں۔ کبھی لگا کہ فیک اکاؤنٹس ہیں لیکن زیادہ تر اصل لڑکیاں تھیں؛ دو طرح کی؛ ایک الٹرا ماڈرن اور دوسری کئی بہنوں کی بڑی بہن جو انڈین فلموں اور پاکستانی ڈراموں سے ایسی بیوقوفانہ“قربانی” سیکھ کر ٹیکسٹ کرتی تھیں۔ دو لڑکیاں ان میں سے باہر پہنچ گئیں؛ ایک ترکی کے کسی گاؤں میں بمشکل گزارا کر رہی ہے؛ دوسری بالآخر تعلیمی ویزہ پر آگئی ہے اور شکاگو میں کسی گورے سے حاملہ ہوکر ابارشن کے لئے مفت کا ڈاکٹر ڈھونڈ رہی تھی کیونکہ گورا رفو چکر ہوگیا اور انشورنس ہے نہیں۔

دنیا میں جہاں بھی کرنسی گرتی ہے، وہاں سب سے پہلے سیکس سستا ہوتا ہے، چاہے ملک اسلامی ہو یا کافر کیونکہ پیٹ سب کا ایک جیسا ہوتا ہے۔ نوے کی دہائی میں ایف ایس سی میں جن کا میرٹ نہیں بنتا تھا وہ روس کی ریاستوں میں ڈاکٹر بننے جاتے تھے۔ جو انگریزی نہ سمجھ سکے وہ رشین کیا سمجھتے تو زیادہ تر واپس آگئے لیکن کئی آتے آتے چھ چھ فٹ کی ایسی حسین روسی گوریاں لے آئے کہ خود ساتھ کھڑے اسکے ڈرائیور لگتے تھے کیونکہ ان دنوں وہاں معیشت کا برا حال تھا اور ہزار روپے روس میں خرچ کرنے والا سیٹھ کہلاتا تھا اور آج روسی ریوبل پاکستان سے ڈھائی گنا مہنگا ہے۔ دس سال پہلے چینی لڑکیوں کو پاکستان لاکر مساج پارلرز میں جسم فروشی کروائی جاتی تھی اور جاتی ہے تو چائینیز سے کیا توقع ہے؟ وہ یہاں سے لڑکیاں لے جا کر کیا کریں گے۔اور یہ کام چند خبریں آنے سے رُک نہیں گیا ہے، نیا نقاب اوڑھ رہا ہے۔ دلال ہر ملک میں ایک جیسا ہوتا ہے، خواہ جنسی ہو یا سیاسی! پاکستان میں غربت بڑھی، لڑکیوں کے رشتے کم ہوئے، جو راستہ ملا، مجبور ہو کر چُن لیا گیا۔ کرسٹن نوارا کی تحقیق Humans at tropical latitudes produce more females کے مطابق انڈیا اور پاکستان میں لڑکیاں زیادہ پیدا ہورہی ہیں۔ انڈین ابارشن کروا کر لڑکیوں کی تعداد گھٹا رہے ہیں جبکہ ہمارے ہاں بیٹی رحمت ہے۔ سوچ کے فرق میں ہم کہیں بہتر ہیں۔

پاکستان میں رشتوں کے بحران کی کئی وجوہات ہیں جن کے حل سے مسائل حل ہوسکتے ہیں۔ ہماری لڑکی بیس کی عمر میں جوان ہوتی ہے اور پچیس کی عمر میں “بوڑھی” جبکہ اس عمر کے لڑکے روز پچاس روپے گھر سے مانگ رہے ہوتے ہیں۔ یہ سوچ بدلنی ہوگی۔ چالیس سال تک لڑکی ماں بن سکتی ہے اور جوان ہوتی ہے۔امریکہ میں پاکستانی ڈاکٹر لڑکیوں کو رشتوں کے مسائل پیدا ہورہے ہیں اور وجہ وہی ہے، ہم عمر میچ کی کمی۔ ایک پینتیس سالہ مرد ڈاکٹر جذباتی طور پر تئیس چوبیس سالہ ڈاکٹر لڑکی کے برابر میچور ہوتا ہے اور شادی کرکے ہنی مون مناتا مزے کے کھانے کھاتا بیوی کو یو ایس ایم ایل ای بھی کروا سکتا ہے اور نوکری میں مدد بھی۔ لیکن ایک تیس بتیس سالہ لیڈی ڈاکٹر ایک چوبیس سالہ “ڈاکٹر کاکے” کو نہیں پال سکتی؛ کہ بیچاری سارا دن ریذیڈنسی کرے، شام کو آکر ہانڈی روٹی اور پھر تھکی ہاری رات کو “کاکے” کا منورنجن کرے۔ ہم عمر میچ کا مسئلہ غریب امیر سب میں ہے۔

لڑکوں میں تعلیم ہے لیکن ہنر نہیں جس کے باعث جلدی شادی نہیں کرسکتے۔ ایک مہینے سے راقم نے آئی ٹی کے لئے نوکری کا اشتہار دیا ہوا ہے۔ ایم سی ایس کرکے بھی طلبا کو ماڈرن ویب، لوگو ڈیزائن اور سرچ انجن آپٹیمائزیشن تک کا نہیں پتا۔ ماسٹرز میں داخلے کے لئے شرط ہو ایک سال نوکری یا ذاتی کام کی تاکہ روٹی کمانے کا تجربہ ہو اور شادی جلدی ہو۔ دوسرا اہم نکتہ ہے بیٹے کی خواہش؛ ایک بیٹے کے لئے متعدد لڑکیاں پیدا کرتے وقت اگر ذرا سا سوچ لیا جائے تو پتا چلے کہ اگر لڑکا پیدا ہو بھی جائے تو منا جب دس سال کا ہوگا بڑی دو بیٹیوں کی شادی کی عمر ہوگی۔ منا کیسے جہیز بنائے گا؟حکومت علما کی مدد سے جینڈر سیلیکشن کو پروموٹ کرے۔ مثلاً ایک بیٹی کے بعد اگر جوڑا بیٹا چاہے تو حکومت خرچہ برداشت کرے اور بیٹا ہونے کے بعد آدمی کی ٹیوبز باندھ دی جائیں تاکہ مزید آبادی نہ بڑھے۔ اگر بیوی کی ٹیوبز باندھیں تو جوان، نئی شادی کرلے گا اور مزید آبادی۔جہیز ایک اور بڑا مسئلہ ہے، دو غریب گھروں کے والدین “بیٹیوں کو ایک جوڑے میں کوئی لے جائے اور بہو کرولا لے آئے” کے چکر میں ہیں۔ حالانکہ ایک جوڑا بیٹی لیکر جائے اور ایک جوڑا بہو لیکر آئے دونوں طرف سے مسئلہ حل کرسکتا ہے۔

معیشت کی تباہی سے زیادہ معاشرتی سوچ کی تباہی لڑکیوں کے لئے مسائل پیدا کرے گی۔ سوچ بدلنے کی ضرورت ہے۔

‏‎کالم نگار: راؤ کامران علی، ایم ڈی
ہر بدھ وار کو کالم لکھا جاتا ہے۔ اگر پسند آئے تو شئیر کریں۔ مزید کالم پڑھنے کے لئے اس پیج Tez Hay Nok e Qalam کو like کریں شُکریہ-

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *