کرونا ایک امتحان

جھیل بلکاش، قازقستان کے جنوب میں ایشیا کی سب سے بڑی اور دنیا کی پندرہویں بڑی جھیل ہے۔ سن 1339 میں ایک بحری جہاز سامان لوڈ کرکے کریمیا کے ساحل کی جانب روانگی کی تیاری میں تھا کہ ایک حبشی غلام نے جہاز کے مالک سے ڈرتے ڈرتے، جہاز میں موجود بیشمار چوہوں کی شکایت کی۔ مالک نے جھڑکتے ہوئے کہا کہ دفع ہوجاؤ؛ غلاموں کی یہی زندگی ہوتی ہے۔ کریمیا کے ساحل تک پہنچتے پہنچتے، آدھے سے زیادہ عملہ جسم پر سیاہ آبلوں یا نمونیہ کا شکار ہو چکا تھا۔ وہاں سے جہاز اٹلی کے ساحلوں تک پہنچا تو محض سرانڈ مارتی لاشیں تھیں؛ بندرگاہ پر موجود عملے نے جہاز کو واپس سمندر میں دھکیل دیا لیکن جب تک دیر ہوچکی تھی؛ چوہوں کے اوپر موجود مکھیاں جن کے پیٹ میں بلیک ڈیتھ یعنی طاعون پھیلانے والا جراثیم یرسینیا پیسٹیس پل رہا تھا، یورپ میں داخل ہوچکا تھا۔ 1347 سے لیکر 1351 تک لگ بھگ بیس کروڑ لوگ اس عفریت کا نوالہ بنے اور اگلے دو سو سالوں تک یورپ کی آبادی واپس پہلے والے شمار میں نہ آسکی۔انسانی تاریخ میں ایسی وبا اور بھیانک موت کی مثال نہیں ملتی۔

کرونا وائرس اس سال کا “تحفہ” ہے۔ ہر ملک میں اس کے بارے میں طبی معلومات اتنی پھیل گئی ہیں کہ دہرانا، قارئین کو بور کرنے کے مترادف ہوگا لیکن اہم بات یاد رکھیں کہ اگر آپ میں سے 100 لوگوں میں یہ وائرس آ جائے تو 87 کو کچھ نہیں ہوگا جبکہ آپ میں سے 13 میں خشک کھانسی، بخار اور سانس لینے میں دشواری ہوسکتی ہے، جبکہ 4 کی حالت خطرے میں جاسکتی ہے۔ اب اگر آپ جنوبی پنجاب سے ہیں تو کشمور سے لیکر وہاڑی تک ایک نشتر ہسپتال ہے جس کے پاس دس وینٹیلیٹر ہوں گے۔ اگر اس علاقے کے تین کروڑ لوگوں میں سے محض دس ہزار میں بھی وائرس پھیل گیا اور ان میں سے محض چار سو کی حالت خطرناک ہوئی تو وہ کہاں داخل ہوں گے؟ کہیں بھی نہیں؛ محض قبرستان!اور اگر تعداد ہزاروں لاکھوں میں پہنچ جائے تو سوچیں!

تو کرونا کا علاج ہے اس سےبچاؤ؛ مصافحہ مت کریں، گلے مت لگائیں اور کسی ایسے بندے کے پاس نہ بیٹھیں جو یورپ یا ایران سے آیا ہو، یا جسے کھانسی، بخار اور سانس لینے میں دقّت ہو۔ بیس سال سے ڈاکٹری کرتے ہوئے میں آپکو تنبیہ کردیتا ہوں کہ کرونا (خدانخواستہ) پاکستان میں ساٹھ سال سے زائد عمر کے مرد حضرات کے باعث پھیلے گا کیونکہ خواتین حفاظتی عمل پر اپنے اور بچوں کے لئے زیادہ احتیاط کرتی ہیں۔ بڑی عمر کے افراد کم امیونٹی کے حامل ہیں، دوسرا یہ خود کو بڑا سیانا سمجھتے ہیں اور اس سیانا پن کا سبب “سیانوں” کی کہی گئی دس پندرہ کہاوتیں ہیں جنھیں موقع بے موقع استعمال کرتے رہتے ہیں اور تیسری وجہ یہ بلاوجہ بہادر بنتے ہیں اور علاج یا احتیاط کی بجائے کہتے ہیں کہ “الّلہ مالک ہے” لیکن جب شوگر سے پاؤں کٹتا ہے یا فالج سے آدھا جسم معذور ہوتا ہے تو بہادری دھری کی دھری رہ جاتی ہے اور انکا رونا دھونا، خدا سے شکوے کرنا، ڈاکٹروں کو ڈاکو کہنا، دیکھنے لائق ہوتا ہے اور پھر انھیں یاد آتا ہے کہ “بہادر” بننے کی بجائے بلڈ پریشر اور شوگر کنٹرول کرلیتے تو اچھا تھا۔ موت کا ایک دن تو مقرر ہے لیکن یہ مقرر نہیں کہ موت بغیر سالوں کی تکلیف کے آئے، ایک دم آئے یا تل تل مارے۔گستاخی معاف لیکن مجھے ذاتی طور پر ڈر ہے کہ ایسے ملنے ملانے والے بزرگ باہر سے وائرس لا کر پورا گھر تباہ کردیں گے۔ اس لئے ان کی “بہادری” کو کنٹرول کرنے اور ان پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔

اسکے بعد سب سے اہم بات ہے غریبوں اور بےکسوں کی مدد کی۔ ایشیا سے لیکر یورپ میں طاعون اس لئے پھیلا کہ چوہوں اور مکھیوں کا سامنا غریبوں کو تھا امیروں کو نہیں۔ غریب مرتے رہے، امیر دیکھتے رہے اور جب امیر لپیٹے میں آئے تو انھوں نے ہاتھ پیر مارے مگر دیر ہوچکی تھی۔ یہی حال کرونا کا ہے۔ ایک سیٹھ سارے سیناٹائزر اور صابن خرید سکتا ہے لیکن اگر اسکا مالی اور ڈرائیور ان چیزوں سے محروم رہا تو وہ مالی، وائرس سیٹھ کے گھر پہنچا دے گا۔ دوسرا مسئلہ ہوگا بھوک؛ جو مزدور روز کماتا اور کھاتا ہے، بازار اور کاروبار بند ہونے سے وہ اور اسکے بچے بھوکے مریں گے تو کیا وہ انھیں مرتا دیکھے گا؟ ہرگز نہیں! یہ مزدور ایسے ہی اکھٹے ہوکر امیروں کے گوداموں تک پہنچیں گے جیسے انقلاب فرانس میں ملکہ میری اینٹونئٹ کے پاس پہنچے تھے اور اس ملکہ نے کہا تھا Then let them eat brioches کہ روٹی نہیں ہے تو انڈہ پراٹھا کھاؤ (کہاوت میں مشہور کیک ہے لیکن اصل میں brioche مکھن اور انڈے سے بنی روٹی ہوتی تھی) اور پھر گلیوں میں عدالتیں لگیں؛ جن کے گال بھرے ہوئے تھے انھیں خوش حال جان کر انکی گردنیں اڑا دی گئیں۔ ایسے ہی ہمارے ملک کے یہ بھوکے مزدور، امیروں کے گودام لوٹیں گے، انکے گھروں میں آکر ذخیرہ اندوز کیا گیا سامان چھین لیں گے۔ اور پھر وہ خونی انقلاب آئے گا جس کی دھائیوں سے پیشن گوئی کی جارہی ہے۔ بہتر یہی ہے کہ انکا خیال رکھا جائے؛ دو وقت کی روٹی کسی کو دینے سے کسی کی دولت میں کمی نہیں آتی۔ جو لوگ وائرس کا شکار ہوکر گھر میں محدود ہیں وہ آپکے لئے باعث رحمت ہیں ورنہ باہر آکر سب میں پھیلا سکتے ہیں؛ انکے گھر میں کھانا اور دوائیں پہنچائیں جب تک وہ صحتمند نہ ہوں۔ حکومت کے پاس پیسہ نہیں ہے؛ گالیاں زرداری کو نکالیں یا نواز کو یا عمران کو، اس سے فرق نہیں پڑے گا۔ امریکہ جیسی بڑی اکانومی تک کے ہاتھ کھڑے ہوچکے ہیں۔ یہ جنگ ہم نے خود لڑنی ہے۔ وبا انسانیت کا امتحان ہے؛ اپنے وسائل سے دوسروں کو بھی “نقل لگوا کر” اس امتحان میں ایسے ہی پاس کروائیں جیسے قابل دوست، کمرہ امتحان میں کمزور دوست کو کروانا ہے۔ دعا ہے کہ اس امتحان میں ہم سب پاس ہوں اور انسانیت کی جیت ہو، ناں کہ کرونا سے لڑتے لڑتے انسانیت ہار جائے۔

کالم نگار: راؤ کامران علی، ایم ڈی
ہر بدھ وار کو کالم لکھا جاتا ہے۔ اگر پسند آئے تو شئیر کریں۔ مزید کالم پڑھنے کے لئے اس پیج Tez Hay Nok e Qalam کو like کریں شُکریہ-

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *