محبوبہ مفتی کا بیان، “کشمیر کو انڈیا کی بجائے پاکستان کے ساتھ الحاق کرنا چاہئیے تھا” قائداعظم کی دور اندیشی اور دانش کی یاد تازہ کروا گیا! بعض اوقات ایک فیصلے کا نتیجہ آتے آتے صدی گزر جاتی ہے اور مورخ کو پچھلی تاریخوں میں جاکر درستگی کرنی پڑتی ہے۔ بائیس کروڑ پاکستانی مسلمان، بیس کروڑ انڈین مسلمان اور اسّی لاکھ کشمیری مسلمان آج اس تاریخی غلطی کو تسلیم کرتے ہیں لیکن اب پچھتائے کیا ہوت!!!
ملک کا باقاعدہ حصے بننے اور الحاق کرنے کے درمیان فرق آرٹیکل 370 کا تھا جو کہ دور کردیا گیا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ عملی طور پر بھارت کا آرٹیکل 370 کی موجودگی میں بھی کشمیر پر مطلق العنان قبضہ تھا اور آج بھی ایسا ہی ہے لیکن آج دنیا کی نظر میں بھارت ایک جھوٹے اور مکار ملک کے طور پر سامنے آیا ہے جو الحاق کرنے کے بعد باقاعدہ قبضہ کرلیتا ہے۔ بچپن میں جب خبریں سنتے تھے تو مقبوضہ کشمیر کے وزیراعلیٰ کا ذکر “کٹھ پتلی” وزیراعلیٰ کے طور پر ہوتا تھا، اب “کٹھ پتلی” وزیر اعلیٰ کا بھی ایسے ہی خاتمہ ہوگیا ہے جیسے گاؤں کے میلوں سے “کٹھ پتلی” کا اور اب راج کرے گا “لیفٹیننٹ گورنر” جس کا باس ہوگا امیت شاہ!!!
اس وقت یہ پیشن گوئیاں عروج پر ہیں کہ آرٹیکل 370 کے خاتمے کا اصل مقصد کشمیر میں ہندوؤں کی آباد کاری اور مسلم اکثریت کو اقلیت میں بدلنا ہے کیونکہ اب غیر کشمیری وہاں زمین جائیداد خرید سکیں گے؛ اسکی مثال فلسطین کے مغربی کنارے میں اسرائیلیوں کی آبادکاری سے دی جاتی ہے؛ تاہم یہ سیب اور مالٹے کا ہی نہیں بلکہ سیب اور بیر کا موازنہ ہے۔ اور اسکی کئی وجوہات ہیں
۱- اسرائیل نے جب سے یہ قدم اٹھایا دنیا ان معاملات میں مزید باخبر اور کسی حد تک چوکنی ہوگئی ہے تاکہ آئندہ ایسا نہ ہو۔ اسے آپ اسرائیل کا patent کہہ سکتے ہیں اور ایک ہی پیٹنٹ دوبارہ نہیں لکھا جاتا۔
۲- بہت کم لوگوں کو شاید پتا ہو کہ جتنا کنٹرول پاکستان کا آزاد کشمیر پر ہے، اس سے لگ بھگ نصف پر کنٹرول چین کا ہے، گویا چین محض ہمسایہ ہی نہیں بلکہ کشمیر میں “اسٹیک ہولڈر” ہے۔ چین کا بھارت کے فیصلے کے خلاف واضح بیان سامنے آچکا ہے۔ افغانستان امن میں بھارت کے پچھواڑے پر چین اور روس نے پہلے ہی لات مار دی ہے۔ اب کشمیر کے معاملے پر چین اور پاکستان ساتھ کھڑے ہیں۔ دو ایٹمی طاقت کے حامل ممالک سے پنگا لینا مہنگا پڑسکتا ہے!
۳- اسرائیل کے بارڈر پر جتنے بھی مسلمان ممالک ہیں، یا تو کمزور ہیں یا مکار ہیں اور ڈپلومیسی کے نام پر سودے کرتے ہیں۔ پاکستان کے سیاستدان لاکھ برے سہی لیکن نواز شریف سے لیکر زرداری تک کبھی کسی نے کشمیر پر سودا نہیں کیا اور نہ قوم کرنے دے گی۔
۴- مقبوضہ کشمیر میں ابھی تک خود کش حملے بھارتی فوج پر ہوئے ہیں۔ فوج بلٹ پروف جیکیٹس اور بم پروف بنکرز کے باعث بمشکل نشانہ بنتی ہے؛ کیا نئے ہندو آبادکار بھی ایسے ہی محفوظ رہ سکیں گے؟ جواب ہے نہیں! جس آگ کا حصہ بننے جلتی ہوئی وادی میں چھلانگ لگائیں گے، اس میں جلنا پڑے گا، ایسے ہی جیسے مسلمان کشمیری جل رہے ہیں، مر رہے ہیں، اندھے ہورہے ہیں پیلٹس کھا کھا کر!
سب سے اہم بات، ہمیں چننا ہے، مسلم اُمّہ کے چکر میں پوری دنیا کے “مامے” بننا ہے یا صرف اپنے مادر وطن کی پرواہ کرنی ہے؟ فلسطین کے ساتھ ہمدردی اپنی جگہ لیکن جس اسرائیل کو ربعہ صدی سے زائد عرصے سے سعودی عرب چھپ کر اور اب کھل کر فنڈنگ کررہا ہے؛ کراؤن پرنس اور ٹرمپ کا داماد، جگری یار ہیں؛ اس میں ہمیں ہزاروں میل دور سے کودنے کی کیا ضرورت ہے؟ اے آر وائے کے امریکہ میں مایہ ناز صحافی جہانزیب نے چند ماہ پہلے اسرائیل کے امریکہ میں سفیر ران ڈیرمر کا انٹرویو کیا تھا، وہ سننے کے لائق ہے کہ کیسے وہ پاکستان کے ساتھ بہترین تعلقات کے خواہاں ہیں۔ اب اگر ہمارے ان سے تعلقات بہتر ہوں اور ہم فلسطین میں ٹانگ نہ اڑائیں تو وہ بے شک اسرائیل ہمارا ساتھ نہیں دیگا لیکن وہ کم از کم ہمارے خلاف تو نہیں ہوں گے اور نیوٹرل رہیں گے۔ میرے لئے میرے وطن کا ہر شہری خواہ شیعہ ہو سنی ہو، ہندو ہو عیسائی ہو، کسی اور ملک کے کسی بھی شہری سے اہم ہے خواہ اسکا کوئی بھی مذہب ہو! یہی پاکستانیت ہے اور یہی حب الوطنی ہے! جب بارڈر پر ہمارا میجر ہرچرن سنگھ، انڈیا کے میجر بشیر احمد پر گولی چلائے گا تو ہماری دعائیں ہرچرن کے ساتھ ہوں گی یا بشیر کے؟ ظاہر ہے، ہرچرن کے ساتھ ہوں گی!!!
امریکہ کی حد تک، پاک پیک اپنے حامی کانگریس مین اور سینیٹرز کو خطوط لکھ رہی ہے کہ وہ کشمیر کے مسئلہ پر نوٹس لیں لیکن یہ بھی سچ ہے کہ انڈین لابی، ہم سے کہیں زیادہ امیر، با اثر اور سب سے اہم بات متحد ہے۔ پاک پیک کے دس بورڈ ممبرز اپنی جیب سے سارا خرچہ برداشت کرتے ہیں کیونکہ کمیونٹی کو ابھی اتنی آگاہی نہیں کہ ان معاملات میں کتنا پیسہ خرچ ہوتا ہے۔ زندگی آج اس کشمیر کے مسئلے ہر ختم نہیں ہو جائے گی بلکہ مزید مسائل سامنے آئیں گے۔ امریکہ میں مقیم تمام پاکستانی جو لیگل امیگرینٹس ہیں سے گزارش ہے کہ پاک پیک یو ایس اے ڈاٹ آرگ (PakpacUSAdotorg)پر جاکر ممبرشپ فارم بھریں اور ہمارا ساتھ دیں! اگر آپ ہر مہینے دس ڈالر بھی دیں تو بھی آپکا حق بنتا ہے کہ ہم سے سوال کریں کہ ہم کیا کررہے ہیں!
انڈیا آسمان کو زمین پر لے آئے، پھر بھی کشمیر کی آزادی تک یہ جنگ جاری رہے گی، قلم سے، آواز سے اور اگر ضرورت پڑی تو لہو سے بھی۔ آزادی بھی ایسے جیسے کشمیری چاہیں نہ کہ دوسرے!!! الّلہ نگہبان!!!!
کالم نگار: راؤ کامران علی، ایم ڈی
ہر بدھ وار کو کالم لکھا جاتا ہے۔ اگر پسند آئے تو شئیر کریں۔ مزید کالم پڑھنے کے لئے اس پیج Tez Hay Nok e Qalam کو like کریں شُکریہ-