ہراسیت اور بلیک میلنگ؛ ایک پھیلتا ناسور

مارچ 2016 میں حسین نواز نے جاوید چودھری صاحب کو ٹی وی پر انٹرویو دیتے ہوئے اپنے سارے اثاثے، محنت اور حلال کی کمائی بتاتے ہوئے، “باوضو” ہوکر ظاہر کردئیے۔ سب حیران تھے کہ “بھولے میاں” کو ایک دم کیا سمائی کہ بغیر کسی وجہ کے ایک غیر سیاسی کاروباری بچہ ٹی وی پر وضاحتیں دینے آگیا۔ اسکے ٹھیک ایک ہفتے کے بعد پاناما لیکس آگئیں اور “الحمد لّلہ” سب کو انٹرویو کی وجہ کا پتا چل گیا۔ رواں مہینے نیب کے چئیرمین کا انٹرویو بھی صحافی جاوید چودھری صاحب نے کیا جس میں اپنے عہدے کی حدود کو پامال کرتے ہوئے، جاوید اقبال صاحب نے تینوں سیاسی پارٹیاں “پیتل کی” اور خود کو “بے بی ڈال میں سونے کی” ثابت کیا اور عندیہ دے دیا کہ انھیں “خطرہ” ہے؛ ٹھیک ایک ہفتے کے بعد انکی ویڈیو ریلیز ہوگئی جس میں وہ بوڑھوں اور جوانوں میں “پیار محبت” کو فروغ دے رہے تھے۔ گویا کہ جیسے حسین نواز کو پاناما کا پتا چل گیا تھا ویسے ہی جاوید اقبال صاحب کو بھی ویڈیو کا اندازہ ہوگیا تھا۔ دونوں بار جاوید چودھری صاحب کو کیوں “پہلا مکہ “(pre emotive strike) مارنے کے لئے استعمال کیا گیا، یہ ایک الگ ٹاپک ہوگا!

بلیک میلنگ کی اس لہر میں بہتر سالہ بزرگ جاوید اقبال آگیا جو کہ اس عمر میں “چومنے” سے زیادہ شاید کچھ اور کر بھی نہ سکے! یہاں تین تجزیے بنتے ہیں۔

۱- فاروق نول جرائم پیشہ انسان ہے اور چالیس سے زائد مقدمات میں مطلوب ہے جن میں کروڑوں کے غبن شامل ہیں۔ اسکی مبینہ بیوی نے شوہر کو بچانے کے لئے جاوید اقبال کو ٹریپ کیا۔ جاوید اقبال کو لگا کہ وہ اسکی “وجاہت” سے متاثر ہے اسلئے ٹھرک کرتا رہا لیکن اسکا کام نہیں کیا اور خاتون نے ویڈیو لیک کردی۔

۲- جاوید اقبال نے خود اسے ٹریپ کیا۔ لیکن جب کوئی شکاری مرد ایسا کرتا ہے تو وہ اسکی قیمت بھی ادا کرتا ہے جو کہ عورت کی خواہش کے مطابق ہوتی ہے۔ گویا کہ اگر ایسا ہوتا تو فاروق نول بھی باہر آجاتا اور جاوید اقبال کی رنگ رلیاں بھی جاری رہتیں۔

۳- عورت نے ڈبل کراس کیا۔ ویڈیو شوہر کے لئے بنائی اور بھاری قیمت پر “بلیک میلر” کو بیچ دی۔ بلیک میلر نے جاوید اقبال کے ساتھ ڈیل کرنی چاہی تو جاوید اقبال نے جاوید چودھری کے انٹرویو میں پیغام دے دیا کہ ڈیل نہیں ہوگی۔ جو کرنا ہے کرلو اور بلیک میلر نے ریلیز کردی۔

اس پوری صورتحال میں جاوید اقبال صرف ایک صورت میں مجرم بنتا ہے اگر اس نے عورت کو ہراساں کیا کہ “میرے ساتھ تعلقات رکھو ورنہ تمھارا میاں لمبی دیر کے لئے اندر گیا”۔ یہ سراسر ہراسیت اور ظلم ہے, عہدے کا ناجائز فائدہ ہے۔ اسکے علاوہ باقی سب کچھ اخلاقی طور پر بُرا سہی مگر قانونی طور پر جاوید اقبال کی فیور میں جاتا ہے کہ بدکرداری اپنی جگہ مگر نہ وہ جھکا اور نہ بلیک میل ہوا۔ اسے کام جاری رکھنا چاہئے اور ہر پارٹی کا یکساں احتساب کرنا چاہئیے۔

چئیرمین اور خاتون کا یہ کیس محض “ٹپ آف دا آئیس برگ”ہے۔ یہ کینسر وطن عزیز میں دور دور تک پھیلا ہے۔ پاکستان دنیا سے اس لئے الگ ہے کہ پوری دنیا میں ملزم، قانونی طور پر مجرم یا بری قرار پاتا ہے جبکہ یہاں مذہبی گناہ ثواب، صورتحال کو پیچیدہ بنا دیتا ہے؛ مثلاً پوری دنیا میں بالغوں کے جنسی تعلقات اگر دونوں کی مرضی سے ہوں تو یہ قانونی طور پر ٹھیک ہیں، خواہ کوئی کسی کی بیوی ہو یا کسی کا شوہر؛ لیکن اگر دباؤ کے تحت ہوں جو کہ خواہ باس کی طرف سے ہو یا دوست کی طرف سے، یا قانون نافذ کرنے والوں کی طرف سے تو یہ جرم ہے اور ہراسیت سے لیکر ریپ تک کے زمرے میں آتا ہے جبکہ پاکستان میں مرضی کے تعلقات بھی بُرے سمجھے جاتے ہیں اسی لئے چھپ چھپ کر استوار کئے جاتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ بُرا سمجھے جانے کے باوجود، تقریباً ہر دوسرا مرد اور بہت سی خواتین ایسے خفیہ تعلقات رکھنے کی خواہاں ہیں۔ جب کسی جذبے کی موجودگی اتنی شدت، یہاں تک کہ ڈیسپیریشن کی حد تک ہو اور وہ غلط بھی سمجھا جائے اور اسکے کئے رازداری بھی اہم ہو تو ایسا ماحول “بلیک میلرز کی جنت” کہلاتا ہے۔ اسی لئے پاکستان دنیا میں بلیک میلنگ میں پہلے چند ملکوں کی صفوں میں آچُکا ہے۔ خوبرو لڑکے، عمر رسیدہ افسران کی جواں سال بیویوں کو ورغلا کر اور امیر آدمی، مڈل کلاس لڑکیوں کو شادی کا جھانسا دیکر انکی ویڈیوز بنا کر انھیں استعمال کرتے ہیں۔ پھانسنے کے بعد ان لڑکیوں کا فیس بک اور انسٹا گرام پروفائل “للچا دینے والا” بنا کر، “کام کے لوگ” شکار کئے جاتے ہیں۔ اس گینگ میں چند بڑے افسران کی بیویاں شامل ہیں اسلئے یہ گرد قالین کے نیچے جمع ہورہی ہے۔ اتفاق کی بات ہے کہ چئیرمین نیب کو بلیک میل کرنے والی بھی ریٹائرڈ فوجی افسر کی بیوی ہے۔اس گروپ میں حسین عورتیں سوشل میڈیا پر اپنے لمبے بال، حسین جلد، گورا رنگ اور نت نئے فیشن، میک اپ اور یوگا کی ایڈورٹائزنگ کرکے کم سن لڑکیوں کو متاثر کرکے کسی کو دوست، کسی کو بہن اور کسی کو بیٹی بنا لیتی ہیں۔ اپنی “بیٹی” کی خیرخواہ بنتے ہوئے اسے “نسوانی حسن” میں اضافے کے طریقے بتائے جاتے ہیں اور جب عام لڑکی ان جیسا “کُول اینڈ ہاٹ”بننا چاہتی ہے تو اسے بہکایا جاتا ہے۔ اس کے لئے جو حربے استعمال ہوتے ہیں وہ یہاں بیان نہیں کئے جاسکتے۔حساس ادارے اس گروپ کو ٹریک کررہے ہیں۔

جہاں تک بلیک میلنگ سے بچنے کا تعلق ہے تو بدقسمتی سے سمارٹ فون کے استعمال نے اسے حد سے زیادہ بڑھا دیا ہے۔ کچھ شادی شدہ جوڑے اپنے خلوت کے لمحات کو سمارٹ فون سے ریکارڈ کرتے ہیں اور وہ فون ہیک یا چوری ہوجائے تو پاکستان کے ہی ایک یو ٹیوب کے جیسے ویڈیو شئیرنگ پلیٹ فارم پر پہنچ جاتی ہے۔ مزے کی بات ہے کہ کافروں کی یوٹیوب پر آپ ایسی بیہودگی پوسٹ نہیں کرسکتے جبکہ پاکستان میں یہ پلیٹ فارم ان دنوں بنا جب “گستاخ یو ٹیوب” پر پابندی لگی اور آج وہاں ہر قسم کی ویڈیو لگ رہی ہے۔ اسی طرح کچھ جوڑے کام کی مجبوری کے باعث دور رہتے ہیں تو میاں بیوی اپنی رومانوی تصاویر ایک دوسرے کے ساتھ شئیر کرتے ہیں لیکن یاد رہے کہ یہ تصاویر آسانی سے لیک ہوسکتی ہیں اسلئے بہتر ہے کہ نہ بنائی جائیں اور اگر ایسا ہو تو بغیر چہرے کے ہوں! یہ نصیحت مضحکہ خیز لگ سکتی ہے لیکن اس سے بہتر ہے کہ آپکی “جذباتیت” وٹس ایپ پر پوری دنیا میں شئیر ہورہی ہو۔ یہی سلسلہ ویڈیو کا ہے، جب تک چہرہ چھپا ہے آپکی عزت آپکے ہاتھ میں ہے ۔ اور مزید یہ کہ ایسا کچھ کسی کے ہاتھ لگ بھی جائے تو مزید شئیر مت کریں۔ سب کی بہنیں بیٹیاں اسی دنیا میں رہتی ہیں۔ وہ شریف ہوں گی لیکن شوہر کی ضد پر نادانی کے باعث ایسا کچھ انکے ساتھ بھی ہوسکتا ہے۔ انسان خطا کا پتلا ہے اور ایک آدھ غلطی سے اسکی پوری زندگی کو جانچا نہیں جاسکتا۔ بلیک میلنگ معاشرتی برائی ہے اور معاشرہ ہی ختم کرسکتا ہے!

کالم نگار: راؤ کامران علی، ایم ڈی
ہر بدھ وار کو کالم لکھا جاتا ہے۔ اگر پسند آئے تو شئیر کریں۔ مزید کالم پڑھنے کے لئے اس پیج Tez Hay Nok e Qalam کو like کریں شُکریہ-

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *