گیارہ جون پاکستان کی تاریخ میں یوم نجات کے طور پر جانا جائے گا۔ نواز شریف کے بعد، زرداری، الطاف حسین اور شریف فیملی کا ایک اور کرپٹ پکڑا گیا۔ گویا سب کے ساتھ “یکساں سلوک” کیا گیا۔تحریک انصاف کے ممبران کی باری آج یا کل میں آنے والی ہے۔ چئیرمین نیب کو تو ان پر سب سے زیادہ غصہ ہے اور “سر سے پاؤں” تک چھترول کے لئے تیار ہوجائیں۔
گزشتہ سال اپریل میں راقم فرانس میں تھا، راقم کے بچپن کے دوست اور یورپ میں پیپلز پارٹی کے کوآرڈینیٹر کامران گھمن آصف زرداری کے بڑے مداح ہیں۔ انھوں نے فرانس میں زرداری کے محلات اور ریس کے گھوڑوں کے فارمز کے بارے میں فخر سے بتاتے ہوئے کہا کہ زرداری کی فیملی سینکڑوں سالوں سے رئیس ہے اس لئے یہ سب خاندانی مال و دولت ہے۔ لیکن اس سے اگلے روز اوبر ڈرائیور پاکستانی مل گیا جو کہ کافی پڑھا لکھا تھا۔ اس نے بڑے مزے کا سوال کیا، “اگر یہ سب خاندانی دولت ہے تو ڈکلیرڈ کیوں نہیں”؟ اس نے گاڑی “ایونیو ڈے لینا” پر ڈالی تو ایرانی سفارتخانے کے ساتھ کی بلڈنگ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ یہ زرداری کی ہے اور پورے پیرس کے پاکستانیوں کو پتا ہے، اور پھر کئی عمارتوں کی طرف اشارہ کرکے کہیں فلیٹ تو کہیں کمرشل انویسٹمنٹ دکھاتا رہا۔ مزے کی بات ہے کہ بچے بچے کو یہ سب پتا ہے اور زرداری ڈھیٹ بن کر کہتا ہے کہ ہاں اربوں روپے فالو دے والے کے بینک میں ٹرانسفر کئے ہیں اور اس میں فالودے والا قصور وار ہے۔
شریفین کو کرپشن سے زیادہ ٹیکس کی چوری مار گئی۔ تہجد گزار میاں شریف اور انکے تبلیغی سرکل نے ہمیشہ ٹیکس کو “اینٹی اسلام” قرار دیا جو کہ کسی حد تک ٹھیک بات ہے لیکن پورے ملک پر لاگو کرنے کی بجائے خاندان پر لاگو کر دیا۔ فرمانبردار بیٹوں نے ابا جان کی بات گرہ باندھ لی جبکہ پوتوں نے بھی اسے دولت کے اضافے میں بہتر سمجھا۔ لاہور کے پولٹری فارمز کے مالکان جانتے ہیں کہ حمزہ پلک جھپکتے پنجاب میں مرغی کی قیمت بڑھا اور گھٹا سکتا ہے۔ اتنا شئیر ہے اسکا اس کاروبار میں جبکہ سلمان شہباز کا بھی بزنس بہت فائدہ مند ہے لیکن محض ٹیکس بچانے کے لئے یہی رقم باہر بھیج کر ٹی ٹی کے ذریعے منگواتے رہے یہاں تک کہ آمدنی کا ننانوے فیصد ٹی ٹی سے آرہا ہے۔ یہی حال اسحاق ڈار کا ہے۔ مالی طور پر ایماندار مشہور یہ شخص ٹیکس بچانے کے چکر میں رگڑا گیا۔ پوری دنیا میں اولاد کو رقم یا پراپرٹی “گفٹ” ٹیکس بچانے کے لئے کی جاتی ہے۔ وراثتی انتقال میں ٹیکس دینا پڑتا ہے۔ اسی لئے اسکے اولاد کو دئیے پینتیس کروڑ کا ٹھٹھہ بن گیا۔
الطاف حسین کی بارگیننگ عمران فاروق قتل میں تو کام آگئی لیکن ریاست بغاوت کے مجرم کو معاف نہیں کرسکتی، اسی لئے خادم حسین کو سبق سکھا کر مثال قائم کی گئی اور اب الطاف حسین کی گرفتاری مولانا فضل الرحمن کو محتاط رہنے کا سگنل دینے کے لئے ہے۔ مولانا سمجھدار انسان ہیں اور ہوا کا رخ پہچانتے ہیں۔
گیارہ جولائی 2018 کو انھی صفحات پر “احتساب کا اسکرپٹ” کے نام سے کالم لکھا گیا تھا۔ ابھی تک اسکرپٹ اور اسکرین پلے ویسے کا ویسا ہی چل رہا ہے۔ چئیرمین نیب کی ویڈیو چلوا کر معلوم نہیں اسے ڈرا گیا تھا یا اسے زخمی درندہ بنا دینے کی سازش رچی گئی تھی۔ آنے والے چند روز میں یہ بات مزید کھل کر عیاں ہوجائے گی جب وزیراعظم کی کریڈیبیلٹی پر بوجھ بنے عناصر چیئرمین نیب کے “دست شفقت” کا نشانہ بنیں گے۔
کیا اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کا بھی احتساب ہوگا؟ افتخار چوہدری کے بیٹے کی سیون سیریز بی ایم ڈبلیو اس لئے نظر آگئی کیونکہ وہ پاکستان میں تھی اور اسے بدمعاشی کرنے اور “ڈان” بننے کا شوق بھی تھا! این وائے یو (نیویارک یونیورسٹی)، کولمبیا یونیورسٹی میں پڑھتے اور مین ھٹن کے پچاس پچاس ہزار ڈالر مہینہ کے رینٹ پر لگژری اپارٹمنٹس میں رہتے بچوں کا کس کو پتا چلے گا جو لیمبرگینی سے کم پر بات نہیں کرتے۔ چالاک ججز اس بات کا باقاعدہ حساب رکھتے ہیں کہ ان بچوں کی فیسیں قانونی طریقے سے دی جائیں جبکہ عیاشانہ طرز زندگی کے لئے گمنام افراد “ڈائرکٹ فنانسنگ” کرتے ہیں۔ قانون میں یہ شق موجود ہے کہ وسائل سے بڑھ کر رہنے (living above means) کا اطلاق سرکاری افسر کے بچوں پر جب ہوتا ہے جب وہ ماں باپ کے ساتھ رہتے ہوں، بیرون ملک اسکا اطلاق نہیں ہوتا۔ ایف آئی اے، نیویارک کی پرائیویٹ ڈیٹیکٹیو ایجنسی سے کنٹریکٹ کرے اور امریکہ کی بیس یونیورسٹیاں ٹارگٹ کرے، ججوں اور جرنیلوں کے بچوں کے “مورٹن گریل” سے لیکر “ورساچی” تک کے بل ٹیبل پر ہوں گے، اپارٹمنٹس اور گاڑیوں کی لیز سمیت! لیکن کرے وہ جس کے اپنے بچے پاکستان پڑھتے ہوں! ایسا طاقتور اور ایماندار افسر ملنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔
سب سے اہم بات لیفٹیننٹ جنرل جاوید اقبال اور بریگیڈئیر راجہ رضوان کی غداری کا مقدمہ ہے جو بڑے بڑے سیاسی کرپٹوں کی گرفتاری کی دھول میں کیمو فلاج ہوگیا۔ اس ٹاپک پر الگ کالم لکھا جائے گا کیونکہ ہوسکتا ہے یہ پھیلے ہوئے کینسر کی ابتدائی علامات ہوں۔ آج کا کالم فوج کے اوپر تھا لیکن کرپٹوں کی گرفتاری کا مزہ کرکرا نہیں کرنا چاہتا تو فی الحال تو “یوم نجات” انجوائے کریں! اور اگر پاکستان ہار جائے (200/7 تو قوی امکان ہے ہار کا) تو بھی اس غم پر “یوم نجات” کی خوشی بھاری ہے!
کالم نگار: راؤ کامران علی، ایم ڈی
ہر بدھ وار کو کالم لکھا جاتا ہے۔ اگر پسند آئے تو شئیر کریں۔ مزید کالم پڑھنے کے لئے اس پیج Tez Hay Nok e Qalam کو like کریں شُکریہ