آزادی کے 72 سال بعد “اے قائداعظم تیرا احسان ہے احسان” کا مفہوم بارڈر کے اس پار سے ہندواتا کی بھڑکتی آگ سے سمجھ آرہا ہے۔
لبرل کا مسئلہ ہے کہ وہ نالائقی کو مذہب کی چادر کے نیچے نہیں چھپا سکتا؛ اسے اپنے کام میں مہارت درکار ہوتی ہے۔ ایک مذہبی ڈاکٹر کسی کو اپنی غفلت سے مار کر “الّلہ دا حکم” کہہ سکتا ہے؛ لبرل کو یہ آزادی نہیں؛ پس یا تو قابل بنو یا کام ہی نہ کرو!!!
قائداعظم لبرل تھے؛ علامہ اقبال (کم از کم زندگی کے نوے فیصد حصے تک) لبرل تھے؛ ان دونوں کا اثاثہ منطق، دانش، بیدار مغزی اور دوراندیشی تھی! مولانا ابولکلام آزاد،مفتی محمود اور مودودی (اچھی نیت کے باوجود) سوچ اور عمل کے اس مقام تک نہ پہنچ سکے جہاں تک لبرل مگر نیک نیت اور قابل قائداعظم پہنچ گئے!!!
آج کا کھلی فضا میں ہر سانس لیتا پاکستانی ؛ الّلہ کے کرم کے بعد، ایک لبرل کی سوچ اور کاوش کا احسن مند ہے۔
کسی کو بھی کافر قرار دینے سے پہلے؛ اسکی سوچ ، اسکی اپروچ ضرور جان لیں۔ ہوسکتا ہے حقیقت میں ایسا نہ ہو جیسا کوئی جاہل آپکے کان میں دال کر؛ مفتی محمود اور مولانا آزاد کی طرح آپکو استعمال کرنے کی کوشش کررہا ہو اور وہ لبرل آپکی آنے والی نسلوں کے لئے آج سے 72 سال بعد کا سوچ رہا ہو!!!
راؤ کامران کی ڈائری سے 🇵🇰