کالج میں نوجوان لیڈر یاروں کا یار اور زبان کا پکا ہوتا ہے؛ آپکو پتا ہوتا ہے کہ گولیوں کی بوچھاڑ میں بھی پیچھے نہیں ہٹے گا اور زبان دی ہے تو آندھی اور طوفان میں بھی آئے گا۔

لیکن وہ جوان جب گھر پہنچتا ہے تو پتا چلتا ہے بڑے دو حرام خور بھائی سب زمین جائیداد بیچ کر کھا گئے، گھر گروی رکھ کر، قرضے چڑھا کر اپنے اپنے ٹبر چھوڑ کر بھاگ گئے۔ ٹبر والوں کی رگوں میں بھی حرام خوروں کا خون ہوتا ہے اور تربیت بھی ڈھٹائی اور بےشرمی کی تو انکی مدد کو آئے چاچا پر فقرے کستے ہیں۔

اپنی اسٹوڈنٹ لائف میں شہزادہ قسم کا چاچا، ان حرام خوروں کے پیٹ بھرنے کے لئے ہر جتن کرتاہے۔ چند چھوٹے چوہدری اسے ایک دعوت میں بلاتے ہیں لیکن بڑا چوہدری جسکا قرضہ بھی سب سے بڑا ہے اور جب تک دونوں کرپٹ بھائیوں کی حرام خور اولاد اپنے پیروں پر کھڑی نہیں ہوتی، چاچا کو پتا ہے کہ بڑے چوہدری سے مستقبل میں بھی قرضہ لینا پڑے گا۔ وہ اپنی زبان، اپنے وعدے، اپنی عزت نفس کو اس ٹبر کا پیٹ بھرنے کے لئے چھوٹے چوہدریوں کی دعوت چھوڑکر بڑے کی دعوت میں چلا جاتا ہے اور کرپٹ بھائیوں کی اولاد کے لئے کھانا لاتا ہے۔
دونوں حرام خوروں کی اولاد بے شرمی سے مانگا کھاتے ہوئے دانت نکالتے ہوئے فرماتی ہے “چاچا زبان کا پکا نہیں”!

گھر ہو یا ملک؛ چاچا ہو یا وزیراعظم؛ ویلوں کا پیٹ بھرنے کے لئے عزت نفس کی قربانی دینی ہی پڑتی ہے۔ یہی درویشی کی ابتدا ہے اور لیڈری کی انتہا!!!

راؤ کامران کی ڈائری سے 🙏

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *