اس قوم کا سب سے بڑا مسئلہ جذباتی عدم توازن ہے اور ہر “کھلاڑی” اسکا بھرپور فائدہ اٹھاتا ہے۔
دادا جی نے زبان دی تھی رشتہ اسی لڑکے سے کرنا ہے خواہ نشئی ہو یا نکھٹو!
چوہدری صاحب چل کر آگئے ہیں پچھلے پانچ سال کی ذلالت بھول کر پھر ووٹ انھیں دے دو!
الّلہ معاف کرنے والے کو پسند کرتا ہے تو اپنے بیٹے کے قاتل کو معاف کردو جو پچھلے پانچ قتل اور پندرہ ریپ سے بھی اسی “پسندیدہ عمل” کے باعث بچتا آرہا ہے!
اب یہی چورن مشرف کی سزا بارے بیچا جا رہا ہے۔ اگر جج مشرف کو بری کردیتا تو عمران خان برا تھا اور عدلیہ بکی ہوئی تھی؛ کسی جج نے ہمت کی ہے تو اب اسکی سات آٹھ سال کی عمر میں کی گئی “برائیاں” سامنے لائی جارہی ہیں۔ گویا کہ آٹا گوندتے ہلتی کیوں ہے؟
لگتا ہے وکلا سنی دیول کی “دامنی”میں سے اسکا اعلیٰ کردار نکال کر محض ڈھائی کلو کا مکا بننا چاہتے ہیں اور ججز گاڈ فادر جیسی فلمیں دیکھ کر لاشوں کو سڑکوں پر گھسیٹنا چاہتے ہیں۔ مرے ہوئے کو علامتی پھانسی دی جاتی ہے، لاش کو نہیں لٹکایا جاتا!
جنرل غفور کو نہیں پتا کہ ڈکٹیٹر کی پھانسی پر احتجاج ٹویٹر پر کرکے دنیا کو تماشہ نہیں دکھایا جاتا بلکہ احتجاج مناسب فورم پر ریکارڈ کروایا جاتا ہے ۔ عموماً ادارے ایسا احتجاج صدر مملکت سے کرتے ہیں جو انکا بھی سپریم کمانڈر ہوتا ہے اور عدالت کے فیصلے پر معافی کا اختیار بھی رکھتا ہے۔
جذباتی عدم توازن کا شکار ایک گھر کے سربراہ کا ہو تو پورا گھر تباہ ہوجاتا ہے۔ اگر ملک چلانے والوں کا بھی یہی حال ہو تو دعا کے علاوہ کیا رہ جاتا ہے!!!
راؤ کامران کی ڈائری سے 🙏