ٹرش ریگن امریکہ کی چند ایک مشہور ترین ٹی وی میزبان اور تحقیقی جرنلسٹ ہے۔ مس ہمپشائر سے میڈیا کی نظروں میں آنے والی حسن اور ذہانت کی پیکر نے کولمبیا یونیورسٹی سے گریجویشن کے بعد پچھلے بیس سال میں سی بی ایس سے سی این بی سی اور بلومبرگ سے فاکس نیٹ ورک کے شو“ٹرش ریگن پرائم ٹائم” تک بے پناہ نام کمایا۔ دو مرتبہ “ایمی ایوارڈز” کے لئے نامزد ہونے والی ٹرش کے کام “جنوبی ایشا میں ٹرائی بارڈر ٹیررازم اور اسلامی انتہا پسند گروپس” نے بے حد پذیرائی حاصل کی۔ دو ہفتے قبل تک اسکی طاقت کا یہ عالم تھا کہ فون اٹھا کر صدر ٹرمپ کو کال کرتی اور ٹرمپ پریس کانفرنس روک کر اسکی کال رسیو کرتا؛ اور پھر کرونا آیا؛ صدر کی “سگی” بننے کے چکر میں اس نے ڈاکٹروں کے مقابلے میں اپنا گیان بانٹا کہ “کرونا کوئی بڑی چیز نہیں ہے بلکہ ڈیموکریٹس اسے صدر ٹرمپ کو کرسی سے ہٹانے کے لئے بڑھاوا دے رہے ہیں”۔ اور اسکے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی۔ فوکس نیوز نے اسکے پانچ سال کی خدمات کو جوتے کی نوک پر رکھتے ہوئے جنبش قلم سے نکال باہر کیا۔ فاکس نیوز پر واشنگٹن لیگ فار انکریذڈ ٹرانسپیرنسی اینڈ ایتھکس WASHLITE نے مقدمہ دائر کردیا ہے اور بھاری جرمانے کی شنید ہے۔ یہ صرف ٹرش ریگن کے ساتھ ہی نہیں ہوا صحافی شین ہینیٹی بھی کرونا سے “بلاوجہ ڈرانے” کے خیالات کے اظہار پر قانون کی چکی میں پس رہا ہے۔
اب آجاتے ہیں مملکت خداداد میں؛ ایک مہینے پہلے تک کے کالم اور خبریں اٹھا کر دیکھیں اور دیکھیں ہمارے مایہ ناز صحافی کیا لکھ رہے ہیں؟ کسی کو بخشو کا سانپ یاد آرہا ہے تو کسی کو فلُو اور کرونا میں فرق ہی نظر نہیں آرہا؛ کسی کو لگتا ہے کہ ہم گٹر کا پانی اور کھوتے، کتے کا گوشت کھا کر ڈھیٹ ہوچکے ہیں تو کسی نے گرمی سے کرونا کو نبٹا دیا ہے۔ اب جب سر پر پڑی ہے تو پچھلے ایک آدھ ہفتے سے ہائی دھائی شروع کردی ہے۔ مزے کی بات ہے کسی صحافی میں اتنی اخلاقی جرات نہیں کہ کہہ سکے کہ وہ پہلے غلط تھے بلکہ آج کا کرونا پھیلنے کا اقرار بھی “بغض معاویہ” میں کر رہے ہیں تاکہ عمران خان کے لتے لے سکیں۔ اسکے ساتھ ساتھ عمران خان کے پاس بھی ایسے “انمول رتن” ہیں جو ایسے نازک موقعہ پر بھی یا چینی کا “کٹا کھول کر” بیٹھ گئے ہیں یا آٹے کا اور حال ہی میں بزدار کی جان چھوڑنے اور خان کو چمٹنے والے “ڈاکٹر”شہباز گل کے مطابق جو ڈاکٹرز لاک ڈاؤن کھولنے کی مخالفت کررہے ہیں وہ سیاست کررہے ہیں! سبحان الّلہ! ہر شاخ پر۔۔۔۔۔۔۔!!!
پوری دنیا میں بیانیہ صحافی اور لکھاری بناتے ہیں۔ ویتنام جیسا ننھا سا ملک جسکا بارڈر چین کے ساتھ اتنا ہی طویل ہے جتنا ہمارا انڈیا کے ساتھ لیکن وہاں کرونا سے ایک موت تک نہ ہوئی! کیوں؟ جواب ہے بیانیہ! انکے صحافیوں کو “کشف”اور “گیان” کی بجائے زمینی حقائق جاننے اور عوام کو قائل کرنے کی دھن تھی ناں کہ سابقہ حکومت کی فراہم کردہ عیاشیوں کی عدم دستیابی کا تروڑ اٹھ رہا تھا کہ ہر موقعہ پر موجودہ حکومت کے خلاف بیانیہ تیار کریں چاہے عوام سولی چڑھ جائیں۔ بدقسمتی سے ہمارے علما کی بڑی تعداد انگریزی پڑھنے سے قاصر ہے اور انکی معلومات کا ذریعہ بھی یہی “کشف سے لبریز” صحافی ہیں۔ اور علما میں سے بھی چند ایک (زیادہ تر ایماندار ہیں) ایسے بیانیے پر لپکتے ہیں جس سے انکا بھی دھندہ چلے تو لاک ڈاؤن اٹھانے اور با جماعت تراویح پر زور ہے؛ کوئی چھ فٹ فاصلے پر مان رہا ہے تو کسی کے مطابق تین فٹ طے ہوا تھا۔ گویا صرف چھینکنے سے کرونا پھیلے گا؛ اس صف سے جہاں سجدہ کریں گے، اس لوٹے سے جس سے استنجا کریں گے، پھیلنے کا کوئی امکان نہیں؟ کمال ہے!!!
آگے آجاتا ہے روزی روٹی کا مسئلہ! کیا آپکو لگتا ہے کہ یہ مسئلہ امریکہ میں نہیں؟ کیا آپکو اندازہ ہے کہ نیویارک میں کتنے لوگ ہیں جن کے پاس ایک ہفتے سے زیادہ کا راشن نہیں؛ “اپنا” اور “اکنا” گھروں میں کھانا پہنچا رہے ہیں۔ ایک بوری روٹی اور چٹنی سے پورا گھر ایک مہینہ گزار سکتا ہے؛ یقیناً مشکل ہوگا لیکن اپنے پیارے کی میت اٹھانے سے کیا مشکل؟ اگر گھر چلانے والا زندہ ہے تو دو تین مہینے کے بعد بہتر کھانا اور رہنا سہنا ہوسکتا ہے اور اگر وہ کرونا کا شکار ہوگیا تو تنگ دستی اولاد جوان ہونے تک ہوسکتی ہے! جہاں تک مذہب کا تعلق ہے؛ قرآن حدیث آپکے پاس ہے۔ حدیث میں ہے کہ مومن کے جان و مال کی حرمت اﷲ کے نزدیک کعبہ کی حرمت سے زیادہ ہے! تراویح کے لئے اس جان کی حرمت کو خطرے میں ڈالنا کیا نبی کریم کی حدیث کو نظر انداز کرنے کے مترادف نہیں؟ گویا کوئی مفتی (نعوذ بالّلہ) اس جان کی حرمت کو خطرے میں ڈال سکتا ہے؟
اس ملک کو پڑھے لکھے صحافیوں کی ضرورت ہے جو اپنی فیلڈ میں ماہر ہوں؛ ہر شعبے کے ایکسپرٹ کو لکھنا چاہئے اور ہوسکے تو صحافت میں چند ہفتے کا آن لائن کورس کرنا چاہئیے؛ جب لکھاری کی آمدن لکھنے اور صحافت پر منحصر نہیں ہو گی، اسے برملا سچ اور حق لکھنے میں خوف اور ہچکچاہٹ نہیں ہوگی۔ وقت آگیا ہے کہ جن صحافیوں نے قوم کو گمراہ کیا ہے ان کے ساتھ بھی ٹرش ریگن کی طرح سلوک کیا جائے ورنہ انکے چینلز پر مقدمہ درج کیا جائے۔ الفاظ سے قوم اور ملک کو تباہ کرنے کی اجازت نہیں دی جائیگی۔ آپ سب کو رمضان مبارک ہو!
کالم نگار: راؤ کامران علی، ایم ڈی
ہر بدھ وار کو کالم لکھا جاتا ہے۔ اگر پسند آئے تو شئیر کریں۔ مزید کالم پڑھنے کے لئے اس پیج Tez Hay Nok e Qalam کو like کریں شُکریہ-