ایک اور دھماکہ ہوا لاہور کے دل میں، کتنی قیمتی جانیں رزقِ خاک ہوئیں۔ ڈی آئی جی اور ایس ایس پی اپنا فرض نبھاتے شہید ہوئے اور غریب لوگ بے موت مارے گئے۔کوئی میڈیکل اسٹور کا مالک ہوگا تو کوئی وہاں جھاڑو دینے والا۔ یہ لوگ رزق کو بچانے کے لئے حکومتی پالیسیوں کے خلاف اکھٹے ہوئے اور جان سے ہی گئے۔ یاد رہے کہ جعلی دوائیاں بنانے والے خود اس احتجاج میں نہیں تھے۔ جو شہید ہو گئے انکی کمی تو کوئی پوری نہیں کرسکتا تاہم افسروں کے بیوی بچے تو صبر کرکے انشورنس پر گزارا کر لیں گے لیکن جو روز کماتے اور کھاتے تھے، انکا پورا گھر بکھر جائے گا۔ مرتا ایک ہے اور جنازہ پورے گھر کا اُٹھتا ہے۔
اب ایک کمیٹی بنے گی اور تحقیق ہو گی اور پھر کچھ نہیں ہوگا۔ سوال یہ نہیں کہ انڈیا نے یہ کروایا یا طالبان نے، جواب اسکا چاہئیے کہ پاک سرزمین پر خودکش حملہ آور اتنے ارزاں دستیاب کیسے؟ یہ “مینوفیکچر” کس نے کیے؟ اور “سپلائی” کہاں سے ہوئے؟ جہاد مسلمان پر فرض ہے لیکن ہمارے ملک میں کن “مسلمانوں” نے یہ ہم پر زبردستی “فرض” کیا؟ ہر وہ انسان جو معمولی سا بھی پڑھا لکھا ہے اور پچھلے پچیس سال سے اخبار اور کالم پڑھتا ہے اسکا جواب جانتا ہے۔ کیا وقت نہیں آگیا کہ ان کو کم ازکم بعد از مرگ علامتی پھانسی دی جائے؟
کتنا فخر تھا قوم کو ان دہشت گردوں پر، ان بگڑی “اولادوں” پر!!! یہ بات 1994 یا 1995 کی ہے جب پورے پاکستان میں بہادری کی منادی کرتا ایک “شیر بہادر” میجر مست گُل ہمارے شہر میں آیا۔ ایک خاص جماعت کے لوگ جو تعلیمی اداروں میں نوجوان لڑکے لڑکیوں کے کپڑوں تک کا معائنہ کرتے ہیں اور اجازت دیتے ہیں کہ کون کیا پہن سکتا ہے “مست گل” پر ایسے نازاں تھے جیسے بیوہ ماں کا بچہ بورڈ ٹاپ کرلے تو خوشی سنبھالی نہیں جاتی۔ اس کاروان کی حفاظت وہی پولیس کر رہی تھی جو آج اپنے ہی خون میں ڈوبی ہے۔ مست گل کے کارناموں اور تحیرآمیز شجاعت کی داستان کچھ ایسی تھی جیسے ٹارزن، بروس لی اور آرنلڈ شوازنگر کو مدھانی میں ڈال کر بلویا گیا ہو اور حاصل شُدہ “مکھن” سے “مست گل” بنایا گیا ہو۔ چلو اس بہانے، ہماری بھی “ایسا فلمی اسٹائل ایکشن ہیرو” دیکھنے کی خواہش تو پوری ہوگئ۔
جن چیف مولویوں نے جہاد کے ذریعے نوجوانوں کو حوروں کے خواب دکھائے، انکے اپنے بچے پورپی ممالک میں گوری حوروں پر ہی “اکتفا”کر رہے ہیں۔ جنرل اختر عبدالرحمان اپنی کتاب میں لکھتا ہے کہ وہ غُربت کے باعث دس میل پیدل اسکول جاتا تھا لیکن “جہاد” کی بدولت اسکے بچوں کی دولت دیکھ کر بل گیٹس ہل جائے۔ پتا نہیں اسکا کوئی ایک بھی بچہ جہاد پر کیوں نہیں گیا، غالباٗ گھر میں ہی کھربوں کو دیکھ کر “جہادِ اکبر” کرتے ہوں گے۔ ایک اور جہادی جنرل حمید گل کی بیٹی اربوں کی مالیت کی بس کمپنی کھول لیتی ہے۔ رہے نام الّلہ کا!!!
دہشت گردی کا کینسر رونے دھونے احتجاج کرنے سے ختم نہیں ہوگا، فوجی آپریشن سے “آپریشن” تو ہو رہا ہے اس ناسور کا لیکن اسکے بکھرے ہوئے حصوں کو بھی بھسم کرنا ہوگا۔ نوجوان نسل کے جو “مذہبی مامے” بنے پھرتے ہیں انھیں لگام دینی ہوگی۔ قانون کی عملداری ریاست کی ذمہ داری ہے نا کہ چند لوگوں کے جمگھٹے کی۔ ریاست فیصلہ کرے اگر کوئی تہوار نہیں منانا ہے تاہم ہر وہ بندہ جو لٹھ لے کر دوسروں کو “ویلنٹائین ڈے” یا “نیو ائیر ایو” پر روکتا ہے، اسکے اپنے کمرے کی تلاشی لیں، اتنا “رنگین مواد” نکلے گا کہ اسکی ذہنی کیفیت اور احساسِ کمتری کی وجہ سمجھ میں آجائے گی۔ کسی بھی دشمن سے لڑنے کے لئے اسکی سپلائی ختم کرنی پڑتی ہے اور ہمارے دہشتگردوں کی سپلائی چند تنظیموں اور انکی تعلیمی اداروں میں لگائی ہوئی نرسریوں سے آرہی ہیں۔ اُٹھیں اور اس (دہشتگردی کے) کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلا دیں!!!
ہر بدھ وار کو کالم لکھا جاتا ہے۔ اگر پسند آئے تو شئیر کریں۔ مزید کالم پڑھنے کے لئے اس پیج Tez Hay Nok e Qalam کو like کریں شُکریہ