زاویہ

پاکستان سمیت پوری دنیا میں دہشت گردی کے واقعات میں سے اسی فیصد سے زائد میں بدقسمتی سے مسلمان شامل ہیں۔ یہ کڑوی حقیقت تسلیم کرتے ہوئے دل بے انتہا دُکھتا ہے کہ مُسلمانوں کو دُنیا کے ہر مُلک میں شک کی نگاہ سے دیکھا جانے لگا ہے۔ پاکستان اور افغانستان میں تو مدرسوں سے فارغ التحصیل طلبا، باقاعدہ خودکش حملوں سے پہلے ویڈیو بنا کر چھوڑتے ہیں کہ وہ جنت میں جانے کے لئے معصوموں کی جان لے رہے ہیں جس کی وجہ سے دوسرے ممالک میں رہنے والے اب یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ کیا اسلام (معاذالّلہ) دہشتگردی سکھاتا ہے؟ یقیناً ایسا ہرگز نہیں ہے ہمارا مذہب امن و آشتی کا مذہب ہے لیکن بدقسمتی سے یا تو دہشت گرد مدرسوں سے پڑھے ہیں یا منبرِ رسول پر بیٹھے ہوئے مولوی حضرات اتنے پڑھے لکھے نہیں کہ غیر مُسلموں کے پروپیگنڈے کا تسلی بخش جواب دے سکیں۔ آپ دل پر ہاتھ رکھ کر ایمانداری سے بتائیں کہ کسی بھی مسلک کے کتنے مولوی یا ذاکر سی این این یا فاکس نیوز پر لائیو لئے جائیں تو وہ کسی بھی اسلامی پہلو کو انگریزی (یا کسی دوسری زُبان میں جسے بیرونی دُنیا سمجھتی ہو) بطریقِ احسن یا موثر طریقے سے بیان کرسکتے ہیں۔ اُمتِ مُسلمہ کی اس زبُوں کو دیکھتے ہوئے، اسلام کو انتہائی اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کے ذریعے دُنیا بھر میں پھیلانے کا ذمہ جس صوُفی نے لیا ہے، اُسکا نام شاہد رشید ہے۔

شاہد رشید میری زندگی کا حیرت انگیز ترین کردار ہے جسے میں بچپن سے جانتا ہوں۔ شاہد نے 1990 میں ایف ایس سی میں مُلتان بورڈ ٹاپ کرکے بورڈ کی تاریخ میں سب سے زیادہ نمبر لینے کا ریکارڈ قائم کیا۔ یونیورسٹی آف انجنئیرنگ اینڈ ٹیکنالوجی سے الیکٹریکل انجنیئرنگ کے بعد پی سی ایس کا امتحان پاس کرکے مجسٹریٹ بن گیا اور شاید پہلا ٹرینی مجسٹریٹ تھا جو سائیکل پر کچہری جاتا تھا۔ قانون کو مزید جاننے کے لئے ایل ایل بی امتیازی پوزیشن میں پاس کیا۔ پھر سی ایس ایس کا امتحان دے کر ڈپٹی اکاؤنٹنٹ جنرل تک ترقی کی اور اس دوران آکسفورڈ یونیورسٹی لندن سے سوشیالوجی میں ماسٹرز کی ڈگری لی۔ درس و تدریس کے شعبے سے دلچسپی کے باعث ایف سی کالج میں پڑھانا شروع کیا اور افسری کو خیرباد کہہ دیا۔ آجکل ایف سی کالج میں سوشیالوجی پڑھاتا ہے۔ اتنی چھوٹی سی عمر میں اتنی کامیابی دیکھ کر منہ سے بے ساختہ ماشااللّہ نکلتا ہے۔

درحقیقت شاہد کا تعارف اس سے کہیں اور زیادہ بڑھ کر ہے۔ گزشتہ پندرہ سالوں میں اسکا تصوف سے گہرا تعلق ہے۔ اردو، انگریزی کے بعد عربی اور جرمن زبانوں پر عبور حاصل کیا اور تصوف پر جس زبان میں بھی کام ہوا ہو، اس کی تلاش میں رہتا ہے۔ ایف سی کالج کی تاریخ کا سب سے مقبول پروفیسر ہے۔ شاہد, علم اور عمل کی جیتی جاگتی تصویر ہے۔ انتہائی میٹھا لہجہ اور انتہائی مدلل گفتگو۔ اسکے طالب علموں میں خوانچہ فروشوں سے لیکر بیرونِ مُلک یونیورسٹیوں کے پروفیسرز تک شامل ہیں لیکن کبھی کوئی ایسا لفظ سننے کو نہیں ملے کا جس سے غرور یا برتری کا شائیبہ ہو۔ ایک سکالر جب صوفی بنتا ہے تو ایسا ہی ہوتا ہے۔ اسکی ذات ایک عالم اور عابد کا امتزاج ہے۔

ہر مسلمان کی طرح شاہد بھی تفرقہ بازی اور دہشتگردی کے حوالے سے فکرمند ہے لیکن ایک صوفی اور ایک عملی انسان محض تشویش کے اظہار تک محدود نہیں رہ سکتا۔ اسے اسکا حل نکالنا ہوتا ہے اور کم علمی کی وجہ سے بڑھتی دہشت گردی کا حل ہے ایسے اسکول کا قیام جہاں دنیاوی تعلیم ہارورڈ کے معیار کی ہو اور دینی تعلیم خالص دینِ محمدی پر ہو، تفرقہ بازی اور نفرت سے پاک؛ محبت، اخلاص اور امر بالمعروف پر مبنی ہو۔ اسکے لئے شاہد رشید نے چند دوستوں کے ساتھ مل کر زاویہ ٹرسٹ اسکول کی بنیاد رکھی ہے۔ آپ فیس بک پر پیج zaawiya trust school پر مزید معلومات حاصل کرسکتے ہیں۔ اسکے علاوہ زاویہ ٹرسٹ اسکول کی ویب سائٹ zaawiya dot org dot pk/ پر بھی رابطہ قائم کرسکتے ہیں۔

ہم میں سے زیادہ تر لوگ اچھے ہوتے ہیں۔ اگر ہمیں والدین، استاد یا دوستوں کی اچھی تربیت اور صحبت میسر ہو تو ہم مزید اچھے ہو جاتے ہیں ورنہ ماحول کے ساتھ بدل جاتے ہیں۔ اگر آپ خودکش بمباروں کی تصویریں دیکھیں تو انکے چہروں سے جہالت یا “ہونق پن” چھلکتا ہے۔ تہذیب سے دور، پہاڑوں میں تربیت کے دوران انھیں صرف حوروں کا انتظار سکھایا گیا۔ اگر وہی دہشتگرد شاہد رشید یا اشفاق احمد (مرحوم) کی صحبت میں رہتے اور اعلیٰ تعلیم حاصل کرتے تو ایسے ہرگز نہ ہوتے۔

زاویہ اسکول کی کامیابی ہمارے مذہب کی کامیابی ہے، ہمارے مُلک کی کامیابی ہے، ہماری کامیابی ہے اور دہشت گردوں کی ناکامی ہے۔ دہشت گردوں کی کمر صحیح معنوں میں جب ٹُوٹے کی جب قوم کمر باندھ لے گی کہ آنے والی نسل کو دین کی روح کو سمجھنے والا، روشن خیال اور بیدار مغز بنانا ہے۔
ہمیں زاویہ اسکول کی تعمیر میں حصہ ڈالنا ہے خواہ دس روپے ہی کیوں نہ ہو۔ شوکت خانم سے لے کر ایدھی ٹرسٹ تک، پاکستان کا ہر بڑا پراجیکٹ ان دس روپے دینے والوں کی حلال کی کمائی کی برکت اور ان کی اربوں سے زیادہ قیمتی دُعاؤں سے بنا ہے۔ زاویہ اسکول کو آپکے دس روپوں کا انتظار رہے گا۔ جزاک الّلہ

‏‎پسِ تحریر!
اس کالم کے کمنٹس پڑھیں اور دیکھیں مدرسوں کے پڑھے لوگوں کی جہالت اور انکی بدزبانی۔ ان لوگوں سے اسلام کو بچانے کی ضرورت ہے۔ ضرورت ہے مذہبی تعلیم اور جدید تعلیم کے ملاپ کے ساتھ انسانوں کی طرح بات کرنے کی تربیت کی۔ ضرورت ہے زاویہ اسکول کی ورنہ ہماری اگلی نسل یا تو غیر اسلامی ہو گی یا پھر ان جاہلوں کی طرح جاہل۔ذرا سوچئے۔

کالم نگار: راؤ کامران علی، ایم ڈی
ہر بدھ وار کو کالم لکھا جاتا ہے۔ اگر پسند آئے تو شئیر کریں۔ مزید کالم پڑھنے کے لئے اس پیج Tez Hay Nok e Qalam کو like کریں شُکریہ

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *