شیخ عبدالّلہ کا گھرانہ مُلتان کے چند جانے پہچانے گھرانوں میں شمار ہوتا ہے۔ اگر آج کے زمانے میں بھی ادب آداب، شائستگی اور وضع داری دیکھنی ہو تو اس گھرانے کے کسی فرد سے مل لیں۔ شیخ عبدالّلہ کے چھ بیٹے تھے جن میں سے چار حیات ہیں۔ انکے بڑے بیٹے ڈاکٹر نعیم اپنے علاج کی غرض سے کئ سالوں سے امریکہ میں مقیم ہیں۔ اس دوران انکے پچیس سال سے بھی پُرانے گارڈ رفیق خان نے اُنکی وسیع و عریض کوٹھی گیسٹ ہاؤس کے طور پر کرایے پر دینی شروع کردی اور اپنے نام رجسٹری کروانے کی کوشش بھی کی۔ ڈاکٹر نعیم کے بھائی ڈاکٹر وسیم جاوید جو کہ نشتر ہسپتال میں اے ایم ایس تھے، کو اس بات کا پتا چلا تو انھوں نے جاکر “گیسٹ ہاؤس” کے مکینوں کو کچھ دے دلا کر عزت سے رخصت کیا اور رفیق خان کو نوکری سے نکال دیا۔ اٹھتّر سالہ رفیق خان نے برسوں کے نمک کا حساب ایسے چُکتا کیا کہ تین بیٹیوں کے باپ، فرشتہ صفت ڈاکٹر وسیم جاوید کو گولیوں سے چھلنی کردیا۔ آج جب یہ سطریں لکھی جا رہی ہیں، ڈاکٹر وسیم جاوید کو مُلتان میں دفنایا جارہا ہے اور انکے بھائی فہیم جاوید میرے ساتھ فون پر بات کرتے ہوئے آبدیدہ ہیں۔
پاکستان کے حالات ایسے ہیں کہ شریف آدمی کا جینا محال ہے۔ اس پر اگر کوئی شریف آدمی محنت کرکے یا بیرونِ مُلک مزدوری کرکے خوشحال ہوجائے تو اپنے پرائے دُشمن ہو جاتے ہیں۔ پرائے حسد کی وجہ سے اور اپنے اس خوشحالی میں ہاتھ پاؤں ہلائے بغیر حصہ دار بننے کے لئے دُشمن بنتے ہیں۔ آپ اخبار اُٹھا کر دیکھ لیں یا کسی پولیس افسر سے بات کرلیں، تیس سےپچاس فیصد اغوا برائے تا وان یا دولت کے لئے قتل کا کھُرا بالواسطہ یا بلاواسطہ کسی “اپنے” کی طرف جا نکلتا ہے اور وہ “اپنا” بھی پکڑے جانے کے بعد بڑے پُرسکون انداز میں کہہ دیتا ہے “جی شیطان آگیا تھا”، تو ایسے حالات میں ہر شریف اور امیر آدمی اپنی اور فیملی کی حفاظت کے لئے گارڈ رکھتا ہے۔
ہر شعبے کی طرح گارڈز کی نوکری کی بھی کچھ نفسیات ہیں۔ کوئی بھی چوہدری یا نواب ہر وقت چوہدری یا نواب نہیں رہتا اور کبھی کبھار ہر انسان کچھ دیر کے لئے ٹوٹتا اور بکھرتا ہے، اور یہ وہ لمحہ ہوتا ہے جب چوبیس گھنٹے ساتھ رہنے والا گارڈ طاقتور کے پیچھے چھپی کمزوری اور شریف کی پوشیدہ بُزدلی کو بھانپ لیتا ہے۔ گارڈ کے پاس بندوق کی طاقت تو ہوتی ہی ہے اور اگر اپنی طرف سے “عقل دان” بھی ہو تو وہ اندر ہی اندر اپنے آپ کو “سائنسدان” سمجھنا شروع کر دیتا ہے اور اپنی “بے قدری” پر دل ہی دل میں کُڑھتا ہے کہ “کیسے کیسوں” کو دولت مل گئ اور اُس جیسا “کوہِ نور” گارڈ بنا بیٹھا ہے۔ یہاں سے اُسکی نیت کا فتور شروع ہوتا ہے اور اُسکی نظریں موقع کی تلاش میں لگ جاتی ہیں۔ لیکن کچھ غلطی مالکان کی بھی ہے جو گارڈز یا مُلازموں سے ذاتی باتیں ڈسکس کرنا شروع کر دیتے ہیں جس سے ان کا رہا سہا پردہ بھی اُٹھ جاتا ہے۔ مُلازم یا گارڈ کو دوست بنانا بہت آسان ہے لیکن جب اسے دوست بنانے کے بعد واپس مُلازم یا گارڈ بنانے کی کوشش کریں تو وہ دُشمن تو بن سکتا ہے لیکن دوبارہ مُلازم یا گارڈ نہیں، جیسے گیلی مٹی سے جو بھی برتن بنانا چاہیں بنا سکتے ہیں لیکن جب وہ برتن بن کر پک گیا تو ٹوُٹ تو سکتا ہے مگر اپنی شکل نہیں بدل سکتا۔
مُلازم یا گارڈ رکھنے کے لئے چند اہم اقدامات اشد ضروری ہیں۔
۱۔ حتی الامکان کوشش کریں کہ گارڈ بال بچے والا ہو۔ اگر وہ طلاق یافتہ ہے یا اُسکی ماں باپ بہن بھائیوں سے نہیں بنتی اسکا مطلب ہے وہ رشتے توڑنے کا ماہر ہے تو پھر مالک مُلازم کا رشتہ کس کھیت کی مُولی ہے۔
۲- گارڈ رکھنے سے پہلے تین حوالے (letters of recommendation) ضرور لیں اور وہ بھی معقول اور سمجھدار لوگوں سے۔
۳- نادرا سے اُسکے شناختی کارڈ کی تصدیق ضرور کریں۔
۴- جس ضلع کا شناختی کارڈ ہو یا جہاں پہلے رہ چُکا ہو وہاں کے ڈی پی او آفس سے پولیس کریکٹر سرٹیفیکیٹ ضرور لیں۔
۵۔ اگر سگریٹ پیتا ہو تو پیشاب ٹیسٹ کروائیں۔ چرس ہیروئن وغیرہ کے لئے۔
۶۔ اپنا کوئی بھی اہم فون یا مسئلہ خصوصاً بچوں کا یا روپے پیسے اور جائیداد سے متعلقہ بات چیت، گارڈ کی موجودگی میں ڈسکس نہ کریں۔
۷۔ گارڈ کو آپکے معاملات میں بولنے کی اجازت نہ ہو، خواہ وہ آپکی حمایت میں ہی بول رہا ہو۔ مداخلت ہمیشہ حمایت سے ہی شروع ہوتی ہے۔
۸۔ گارڈ کو کوئی ایسا کام نہ سونپیں جس کی آپ نگرانی نہ کرسکیں مثلاً جائیداد یا زمینوں کی رکھوالی۔ اگر وہ گھر کی رکھوالی کر رہا ہو تو اسے ایک خاص مُقام سے آگے جانے کی اجازت نہ ہو۔اگر رفیق خان کو اپنی حد عبور کرکے زیادہ پیسوں کا چسکا نہ لگتا تو یہ “خزانہ” ہاتھ سے نکلنے پر وہ آگ بگولہ نہ ہوتا۔
۹-گارڈ کا کوئی رشتہ دار گاؤں وغیرہ سے آئے تو اسے سرونٹ کوارٹر میں ٹھہرنے کی اجازت نہ ہو۔ بےشک کچھ پیسے دے دیں تاکہ وہ ہوٹل میں ٹھہر سکے۔
۱۰-گارڈ کو کوئی دھمکی وغیرہ نہ دیں، مثلاً “اگر فلاں کام کیا تو تجھے نکال دوں گا” اور اگر دھمکی دیں تو پھر وہ کام کرنے پر اسے واقعی نکال دیں ورنہ آئندہ آپکی کسی بات کی کوئی اہمیت نہیں ہوگی۔ گارڈ کو نکالتے وقت اُسکا اسلحہ آپکے پاس ہونا چاہئے، آپکے پاس اسلحہ اور کوئی دوست ساتھ ہونا چاہئے اور گارڈ کی طرف سے بدتمیزی یا جارحیت کے لئے ذہنی طور پر تیار رہنا چاہیے۔
۱۱- اگر ملازم یا گارڈ پر کوئی احسان کریں تو وہ مُسلسل نہ ہو بلکہ ناغے کیساتھ ہو۔ مُسلسل احسان “حق” بن جاتا ہے اور جب وہ احسان بند کیا جائے توپھر یہ “حق چھیننے” کے مُترادف بن جاتا ہے۔
پاکستان میں انصاف اتنا سُست ہے کہ سیٹھ عابد جیسے طاقتور اور بارسوخ شخص کے بیٹے سیٹھ ایاز کو اُسکا گارڈ 2006 میں قتل کرتا ہے اور 2015 میں اسے پھانسی ہوتی ہے۔ ڈاکٹر وسیم جاوید کا خون رائیگاں نہیں جائے گا۔ سول سوسائٹی، امریکہ اور پاکستان میں ڈاکٹرز کمیونٹی بالخصوص انتہائی موثر پی ایم اے اور وائے ڈی اے اس کیس کو فالو کر رہی ہیں۔ جب تک رفیق خان یا اسکے ساتھیوں جیسے سفاک مجرموں کے کیس دہشتگردی کی عدالتوں میں نہیں چلیں گے اور جلدازجلد عبرتناک انجام تک نہیں پہنچیں گے، لوگوں کا قانون اور انصاف سے اعتماد بحال نہیں ہوگا۔
کالم نگار: راؤ کامران علی، ایم ڈی
ہر بدھ وار کو کالم لکھا جاتا ہے۔ اگر پسند آئے تو شئیر کریں۔ مزید کالم پڑھنے کے لئے اس پیج Tez Hay Nok e Qalam کو like کریں شُکریہ