امریکن عرب اسلامی سربراہی کانفرنس سعودی عرب کے میں بڑے زوروشور سے مُنعقد ہوئی۔ سعودی عرب نے دیگر عرب ممالک کو ساتھ ملا کر امریکہ کے سہارے ایران کو تنہا کرنے کا منصوبہ بنایا ہے لیکن یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ یہ “کمبل” سعودی عرب کو کب اور کیسے چھوڑے گا یا “ڈبو کر رہے گا”۔ اسلام مخالف ووٹوں سے منتخب ہونے والا ڈونلڈ ٹرمپ، سعودی عرب میں اسلام کے گُن گاتا ہوا 400 بلین ڈالر کی انوسٹمنٹ لے اُڑا ہے جس میں سے 110 بلین ڈالر کے ہتھیار ایک “کافر مُلک” سے لے کر برادر اسلامی مُلک کے خلاف استعمال کئے جانے کا ارادہ ہے! الّلہ اکبر!
پاکستانی میڈیا خصوصاً سوشل میڈیا اس موقع پر عالمی سیاسی تجزیہ نگاری (global political analysis) سے زیادہ اپنے ہی وزیراعظم کا ٹھٹھہ کرنے میں مصروف ہے۔ نواز شریف سے کسی بھی معقول انسان کو ہمدردی نہیں ہوسکتی لیکن جب وہ کسی دوسرے مُلک میں جاتے ہیں تو وہ ہمارے وزیراعظم ہوتے ہیں اور اُنکی عزت ہماری عزت ہوتی ہے۔ یہ بات آصف زرداری سے لیکر یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف پر بھی لاگو ہوتی ہے۔ نواز شریف کی اپنی سیاسی غلطیاں اور کرپشن ایک طرف لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستانی سفارتخانے کی امریکہ میں کیا کارکردگی اور کیسی لابنگ ہے کہ وہ امریکہ کے صدر کے مُنہ سے وزیراعظم پاکستان حتی کہ پاکستان کا نام تک نہ کہلوا سکا؟
امریکی صدر نے اپنی تقریر میں اُردن کے پائیلٹوں کا ذکر کیا، لبنانی فوج اور اماراتی دستوں کی دہشتگردی کے خلاف جنگ کو سراہا، قطر سے لیکر کویت تک کے تعاون کی تعریف کی؛ لیکن دہشتگردی کے خلاف جنگ میں بیش بہا قُربانیاں دینے والے ملک کے وزیراعظم نواز شریف کے چہرے پر ڈونلڈ ٹرمپ کی نظر ایک لمحے کو رُکی اور آنکھوں میں پہچان کی رمق کے بغیر آگے گُزر گئ جیسے گلی محلے میں “کُڑیو منڈیو چیز ونڈی دئی” کی آواز لگا کر کوئی کینہ پرور شخص سب بچوں کو “چیز” دیتا ہوا اپنے ناپسندیدہ بچے کو نظر انداز کرتا ہوا اگلے بچے کی جانب چلا جاتا ہے۔ محسوس نہ کرو تو کچھ نہیں اور محسوس کرو تو “زمین پھٹ جائے اور غرق ہو جاؤں” کا مُقام ہے۔
جب سعودی عرب میں پاکستانی وزیراعظم امریکی صدر سے ایک مصافحے کی تمنا کررہے تھے، امریکہ کی ریاست اوہائیو کے شہر کولمبس کے مضافات میں ایک چھوٹے سے شہر مینزفیلڈ میں پاکستانی کمیونٹی کانگریس مین مائیک ٹرنر سے اس دورے پر اپنے تحفظات کا اظہار کر رہی تھی۔ “پاکستانی امریکن پولیٹیکل ایکشن کمیٹی” کے زیر اہتمام اس سربراہی اجلاس میں پاکستانی- امریکن شہریوں نے وہ سوالات پوچھے جو اس دورے کے پس منظر میں پیدا ہوتے ہیں۔ کانگریس مین مائیک ٹرنر اس لحاظ سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ وہ نیٹو پارلیمانی الائنس کا تین سال سے چئرمین ہے اور برسلز میں رواں ہفتے میں ہونے والے نیٹو کے سربراہی اجلاس میں اُسکا کردار کلیدی ہے۔ “پولیٹکل ایکشن کمیٹی”، امریکہ میں اپنی کمیونٹی سے متعلق خیالات اور تحفظات کو اراکین پارلیمنٹ اور اقتدار کے ایوانوں تک پہنچاتی ہے۔ آپ نے اکثر سُنا ہوگا کہ وائٹ ہاؤس سے کبھی کوئی بیان جاری ہوا جو اسرائیل کے حق میں نہیں تھا مثلاً “اسرائیل کے مغربی کنارے پر مزید گھروں کی تعمیر کے خلاف بیان”؛ تو واشنگٹن ڈی سی کی سب سے طاقتور “امریکن اسرائیلی پبلک افئیر کمیٹی”(AIPAC) اپنا اسرورسوخ استعمال کرکے اپنے “تعلق دار” کانگریس مین اور سینیٹرز تک “صحیح صورتحال” پہنچا کریا تو یہ بیانیہ تبدیل کروانے کی کوشش کرتی ہے یا اس پر راضی کرتی ہے کہ بات بس بیان تک محدود رہے اور کوئی ایکشن نہ لیا جائے۔ کچھ ایسے ہی اصولوں پر چلتے ہوئے سے “پاکستانی امریکن پولیٹیکل ایکشن کمیٹی” بھی اپنا پیغام مثبت طریقے سے پالیسی میکرز تک پہنچاتی ہے۔ جب اسّی سےزائد منظم پاکستانی امریکن ایک جگہ اکھٹے ہوکر کانگریس مین سے بات چیت کریں تو وہ کتنی پُر اثر ہوتی ہے، اُسکا اندازہ آپ اس بات سے لگا لیں کہ ہمارے اجلاس کے ایک گھنٹے کے بعد کانگریس مین مائیک ٹرنر کے چیف آف اسٹاف کا فون آیا کہ کانگریس مین مائیک ٹرنر ہماری تنظیم کے اراکین اور کمیونٹی ممبران سے ایک بار پھر ملنے کا متمنی ہے۔
موجودہ پاکستانی حکومت اور امریکہ میں پاکستانی سفارتخانے کی نہ تو کوئی موثر لابنگ ہے اور نہ اثرورسوخ۔ ن لیگ کے زمانے میں امریکہ میں چند “رنگ باز” کسی سیاسی جلسے میں کانگریس مین یا سینیٹر کے پیچھے کھڑے ہوکر “سری” باہر نکال کر دو انگلیوں کا وی بنا کر تصاویر رائے ونڈ روانہ کر دیتے ہیں اور اس “عظیم اثرورسوخ” کے بدلے میں کسی ایس ایچ او بھائی کو منافع بخش تھانہ مل جاتا ہے یا بہنوئی کو ضلع کونسل کا ٹکٹ۔ یہی حال پیپلز پارٹی کے جیالوں کا ہے۔ ہر وہ امریکی جیالا جو “زمانہ دھتکار” میں زرداری صاحب کے “کباب و شباب” کا بندوبست کرتا رہا وہ پی پی کا امریکہ میں “لابنگ” کرنے والا بن گیا۔ اور یہ لابنگ کس معیار کی ہوتی ہوگی، سوچنے کے لئے آئن اسٹائن ہونا ضروری نہیں۔
وقت کی ضرورت ہے کہ پاکستان کی بین الاقوامی لابنگ سیاسی جماعتوں سے بالاتر ہو۔ نیشنل سکیورٹی کونسل کے ماتحت یا لانگ رینج پلاننگ کمیٹی بنا کر امریکہ میں متحرک پاکستانی کمیونٹی ممبران سے بات چیت کرکے دور رس نتائج پر مبنی لائحہ عمل طے کیا جائے اور اس عمل کو یقینی بنایا جائے کہ پاکستان میں سیاسی حکومتوں کی تبدیلی سے بیرون مُلک اثرورسوخ اور لابنگ کی پالیسی میں کوئی منفی تبدیلی نہ آئے اور امریکہ میں ایسے لوگوں سے اجتناب کیا جائے جن کے اوپر پاکستان میں تھانہ، کچہری اور ٹھیکوں کا “خاندانی بیگیج” سوار ہے۔
کالم نگار: راؤ کامران علی، ایم ڈی
ہر بدھ وار کو کالم لکھا جاتا ہے۔ اگر پسند آئے تو شئیر کریں۔ مزید کالم پڑھنے کے لئے اس پیج Tez Hay Nok e Qalam کو like کریں شُکریہ